پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو افغانستان میں سرگرم سب سے بڑا ’دہشتگرد گروپ‘ہے، علاقائی اور عالمی دہشتگردی کے ایجنڈے کے ساتھ القاعدہ کے متبادل کے طور پر جگہ لے سکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عثمان جدون نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے اندر اور باہر دہشتگردی ملک، خطے اور دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان انتظامیہ پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کے تاثر پر اپنی پوزیشن واضح کرے، جان اچکزئی
انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کے اندر دہشتگردانہ سرگرمیوں کے باعث تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نے بارہا افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں، لیکن کابل میں طالبان کی قیادت ان مطالبات کو نظر انداز کرتی نظر آئی ہے اور اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ یہ گروپ پاکستان میں حملے کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا ہے۔
اس سے قبل دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے پرعزم ہے اور تصفیہ طلب مسائل کے حل کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عثمان جدون نے سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر بحث کے دوران کہاکہ ’اگرچہ افغان عبوری حکومت (اے آئی جی) داعش کے خلاف لڑ رہی ہے، لیکن القاعدہ، ٹی ٹی پی اور ان جیسے دیگر مختلف دہشتگرد گروہوں کے خطرے سے نمٹنا ابھی باقی ہے۔
مزید پڑھیں:طالبان نے پُرامن چترال اور کیلاش کو نشانہ کیوں بنایا؟
انہوں نے ٹی ٹی پی کو اس وقت عالمی امن اور خطے خصوصاً افغانستان میں سب سے بڑی دہشتگرد تنظیم قرار دیا اور کہا کہ ہماری سرحد کے قریب محفوظ پناہ گاہیں ہونے کی وجہ سے، یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے براہ راست اور روزانہ خطرہ ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہاکہ ’ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کا مقابلہ کرنے میں، ہمارے سیکیورٹی اور سرحدی حکام نے غیر ملکی افواج کے چھوڑے گئے اسلحہ سے کچھ جدید ہتھیار ضبط کیے ہیں۔
پاکستانی سفیر عثمان جدون نے نام لیے بغیر مزید کہا کہ دہشتگرد گروپ کو ہمارے دشمن سے بیرونی حمایت اور مالی اعانت بھی ملتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی تیزی سے دیگر دہشتگرد گروہوں کے لیے ایک چھتری کا کام کر رہی ہے جس کا مقصد افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
عثمان جدون نے کہا کہ ’ہمارے پاس مجید بریگیڈ جیسے دیگر دہشتگرد گروہوں کے ساتھ اس کے تعاون کے ثبوت موجود ہیں جو چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعاون، خاص طور پر سی پیک میں خلل ڈالنے کے لیے دہشتگردی کا استعمال کر رہے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کے اندر دہشتگرد حملوں میں ٹی ٹی پی کے کردار سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اہم انکشافات
انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے ساتھ طویل وابستگی کی وجہ سے ٹی ٹی پی علاقائی اور عالمی دہشتگردی کے ایجنڈے کے ساتھ القاعدہ کا بازو بن کر متبادل کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان ان خطرات کے خاتمے کے لیے تمام ضروری قومی اقدامات اٹھائے گا اور دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں تعاون کرے گا۔
عثمان جدون نے افغان طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو افغانستان میں سرکاری اور نجی طبی اداروں میں جانے سے روکنے کی نئی ہدایت پر بھی بات کی اور کہا کہ بین الاقوامی برادری عبوری حکومت سے توقع رکھتی ہے کہ وہ انسانی حقوق اور سیاسی امور سے متعلق اپنے اعلان کردہ وعدوں کو پورا کرے گی۔
مزید پڑھیں:پیرس اولمپک گیمز: طالبان نے 3 افغان خواتین ایتھلیٹس کی ذمہ داری قبول کرنے سے کیوں انکار کیا؟
انہوں نے کہاکہ خواتین پر پہلے سے عائد پابندیوں میں نرمی کرنے کے بجائے، طالبان حکومت نے خواتین اور لڑکیوں پر مزید پابندیوں عائد کر دی ہیں جو اسلامی احکامات، فقہ اور شریعت کے منافی ہیں۔
پاکستانی سفیر نے دوحہ پروسیس فریم ورک پر زور دیا اور کہا کہ دہشتگردی، انسانی حقوق اور وسیع پیمانے پر غربت سمیت افغانستان کو درپیش چیلنجز بھی خطے کو متاثر کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری 23.7 ملین افغانوں کی مدد کرنے کی پابند ہے جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے اور افغانستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی پابند ہے جس میں قومی بینکاری نظام کی بحالی اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی سے گرفتار کالعدم ٹی ٹی پی کے 2 ملزمان سے کتنی رقم برآمد ہوئی؟
سفیر پاکستان نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ نسلی، تاریخ، عقیدے، زبان اور ثقافت کا گہرا رشتہ ہے، ہمارے افغان بھائیوں اور بہنوں کے مصائب پاکستانی عوام پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پاکستان سے زیادہ کوئی ملک ایسا نہیں جو افغانستان کو بین الاقوامی برادری میں واپس دیکھنے کے لیے پرجوش ہو۔