ایک وقت تھا جب غزہ میں سردیوں کا موسم لوگوں کے لیے ایک محبوب موسم ہوا کرتا تھا جہاں خیر و برکت، خوشیوں اور تمانیت کا دوردورہ ہوتا اور بچے بڑے تمام ہی گرمی کی تمازت کے بعد اس موسم کی ٹھنڈک کے منتظر رہا کرتے تھے۔ جاڑے کی بارش آتی تو بچے گلیوں میں دوڑتے ہوئے خوشی کے گیت گاتے اور کسان اپنی زمینوں پر آڑو، انار اور سیب اگانے کے لیے پرجوش ہوجاتے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ: پناہ کے متلاشیوں پر اسرائیلی حملے اور والدین کو ڈھونڈتے خاک و خون میں لت پت بچے
بارشیں ایک نعمت ہوا کرتیں۔ کسان ان کا استقبال کرتے اور فصل کے نئے موسم کی تیاری شروع کر دیتے۔ بازار مقامی طور پر اگائی جانے والی اشیا جیسے پالک، گاجر، کھیرے، سنترے، کیوی، کھجور اور اسٹرابیری سے بھرے ہوتے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے باسیوں کے لیے بارش کے دن گھر میں آرام کرنے گرم کمبلوں کے نیچے گھومنے یا چائے کے گھونٹ لینے، آگ کے گرد جمع ہونے کا وقت ہوتا ہے۔ دودھ، نشاستے، ناریل کے ٹکڑے اور گری دار میوے سے بنے مشروب کے دور چلتے۔ رات کو خاندان ٹی وی کے سامنے فلم اور ٹی وی شوز سے محظوظ ہوتے۔ سرد اور خشک دنوں میں بہت سے لوگ سمندر کے کنارے نکل جاتے ہیں، ٹہلتے اور دوستوں سے ملتے۔ مکئی اور شاہ بلوط کی خوشبو ہوا کو بھر دیتی تھی۔ لوگ مٹھائی کے دکانوں پر رک جاتے اور گرم کنافہ لیتے یا پھر نٹ یا پنیر سے بھری نابلسیا کھاتے۔
غزہ کی وہ سردیاں اب ماضی کے مزاروں میں کھوچکی ہیں۔ نہ وہ دکانیں رہیں اور نہ وہ آرام دہ محفلیں اور میٹھی چہچہاہٹیں۔ اب بارش ہونے پر کوئی بچہ خوشی کے گیت نہیں گاتا۔ اس سال سردیاں کھیر اور دیگر مٹھایاں بھی لے کر نہیں آئیں بس اگر اس موسم کے دائیں بائیں آگے پیچھے کوئی ہے تو وہ ہیں مصائب اور سراسر مایوسیاں، نظروں کے سامنے پنوں کے دم توڑدینے، بچھڑ جانے کا غم۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی فوج کا غزہ کے اسکول پر دھاوا، بچوں و صحافیوں سمیت درجنوں افراد شہید
اب لوگ بارش دیکھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ کہیں سیلاب کا پانی بے گھر ہونے والے کیمپوں کو بہا کر نہ لے جائے اور ان کے سروں سے کمزور سا سائبان بھی نہ جاتا رہے۔
بادلوں کی گرج اب بموں کی آواز جیسی ہو گئی ہے جو خوفزدہ کر دیتی ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے پاس تو طوفان سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ کم از کم 10 لاکھ افراد کو سردیوں کے موسم سے کوئی بنیادی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
بوریوں سے بنی پناہ گاہیں اور بستر کے نیچے بہتا پانی
عارضی پناہ گاہیں ٹیکسٹائل، ترپال، کمبل، گتے اور یہاں تک کہ چاول کی پرانی بوریوں سے بنتی ہیں۔ وہ آندھی اور بارش کو مشکل سے برداشت کر سکتی ہیں۔ رات کے وقت خاندان جاگتے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، سختی سے اپنے خیمے اپنی جگہ پر رکھتے ہیں تاکہ وہ اڑ نہ جائیں جب کہ نیچے سے پانی ان کے گدوں، کمبلوں اور دیگر سامان کو بھگودیتا ہے۔
اکثر، پناہ گاہیں اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ بارش انہیں تباہ کر دیتی ہے اور رنج و الم میں ڈوبے مایوس خاندانوں سے تنکے سا سہارا بھی چھین لے جاتی ہے۔ عارضی پناہ گاہوں کی تعمیر کے لیے خیموں اور سامان کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں جن کی پناہ گاہیں اڑا دی گئی ہیں یا بہہ گئی ہیں وہ کھلے آسمان تلے ہی بیٹھے ہیں اور دیگر مصائب کے ساتھ ساتھ سردی کی اضافی صعوبتیں بھی سہہ رہے ہیں۔
کچھ لوگ اس قدر بے چین ہو گئے ہیں کہ وہ اب پناہ لینے کے لیے اپنے بم زدہ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی عمارتیں اتنی بری طرح سے مخدوش ہوچکی ہیں رہ سہی چھتیں اور دیواریں بھی کسی بھی وقت ان پر قیامت بن کر ٹوٹ سکتی ہیں لیکن وہ یہ پوچھتے ہیں کہ کوئی دوسرا راستہ ہو تو بتاؤ۔
گرم رہنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ لکڑی بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ ایک کلو لکری کی قیمت اب 9 ڈالر ہے جو لوگ اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں خود ہی اسے تلاش کرنا پڑتا ہے جو ایک تھکا دینے والا اور پریشان کن کام ہے۔ یہاں تک کہ اگر آگ لگنے کے لیے کافی لکڑی موجود بھی ہو تب بھی یہ خون منجمد کرنے والی یخ بستہ راتوں کے دوران ایک خاندان کو گرم رکھنے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔
جو چیز سردیوں کی سردی کو مزید ناقابل برداشت بناتی ہے وہ ہے بھوک۔ اکتوبر سے غزہ میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ آٹے کے ایک تھیلے کی قیمت 200 ڈالر ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی لوٹ مار، اقوام متحدہ نے غزہ متاثرین کے لیے خوراک اور امدادی سامان کی فراہمی روک دی
بازاروں سے گوشت اور مچھلی مکمل طور پر غائب ہو چکی ہے۔ سبزیاں اور پھل نایاب اور انتہائی مہنگے ہوچکے ہیں۔
فی خاندان صرف ایک پلیٹ چاول
بیکریاں بند ہوچکی ہیں کیونکہ ان کے پاس پکانے کے لیے کوئی سامان نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے انروا اور ورلڈ فوڈ پروگرام جو عام طور پر سب سے زیادہ کمزوروں کے لیے اشیا مہیا کرتے ہیں اس حد سے بڑھی ہوئی مانگ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
دال چاول کی ملنے والی صرف پورے خاندان تو کیا اس کے ایک فرد کا بھی پیٹ نہیں بھرسکتی۔
’نہ رویئے تے سوں نئیں سکدے‘
رات کے وقت ہر کیمپ سے بھوکے بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو گڑگڑا کر اپنے والدین سے کھانا مانگتے سنائی دیتے ہیں اور ان کے والدین دبی دبی آواز میں اس بے بسی پر رودیتے ہیں۔
گرمجوشی اور خوشی کی یادیں جو کبھی غزہ میں سردیوں کے دوران گھروں میں بھری ہوئی تھیں اب دھندلا گئی ہیں۔ سردی میں مایوسی اور مصائب کا راج ہے۔ فلسطینی عوام کے مصائب کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ جنگ اور نسل کشی ختم ہو جائے گی اور خوراک دوبارہ دستیاب ہو جائے گی اور لوگوں کو مناسب رہائش ملے گی۔ وہ دن ایک روز دوبارہ لوٹ آئیں گے۔ کیا دنیا کی تقریباً 2 ارب سے زائد افراد پر مشتمل ایک برادری کے اس چھوٹے سے حصے کی یہ آس کبھی پوری ہوگی یا اسرائیل کے ہاتھوں جاری ان کی نسل کشی ایک دن ان کا وجود ہی مٹادے گی؟