سنہ 2004 میں کرسمس کے اگلے روز یعنی 26 دسمبر کو انڈونیشیا کے ساحل کے قریب زیر سمندر آنے والے شدید زلزلے نے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ رکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت 9.1 ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجے میں 800 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 51 میٹر (167 فٹ) تک بلند سمندری لہروں نے جنم لیا اور انڈونیشیا کے علاقے آچے میں تو ان لہروں نے 5 کلومیٹر تک ہر شے ملیا میٹ کر دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا میں 22 سال بعد آتش فشاں پھٹ گیا، 11ہزار افراد کا انخلا، سونامی کی وارننگ جاری
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سونامی سے تھائی لینڈ، سری لنکا، مالدیپ اور انڈیا میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ اس کے اثرات افریقہ میں صومالیہ، تنزانیہ، جنوبی امریکا میں میکسیکو اور چلی کے علاوہ قطب جنوبی تک محسوس کیے گئے۔
سونامی کے نتیجے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں میں ہزاروں بچے بھی شامل تھے۔ اس آفت کے نتیجے میں 17 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے اور تقریباً 10 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
دنیا کے لیے انتباہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے اس سونامی کو 21 ویں صدی کی پہلی عالمگیر تباہی قرار دیا جس کا شمار حالیہ انسانی تاریخ کی چند انتہائی تباہ کن قدرتی آفات میں ہوتا ہے۔
انہوں نے دنیا بھر کے ممالک سے کہا ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو ایسی آفات سے تحفظ دینے کا عزم کریں اور پائیدار ترقی کے لیے بنائی جانے والی حکمت عملی میں آفات سے بچاؤ کی تیاری اور استحکام کو خاص طور پر مدنظر رکھیں۔
مزید پڑھیے: جاپان میں زلزلے کے بعد سونامی کی وارننگ، 36 ہزار گھر انے بجلی سے محروم
قدرتی آفات سے لاحق خطرات میں کمی لانے کے معاملے پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کمل کشور کا کہنا ہے کہ یہ سونامی دنیا بھر کے لیے انتباہ تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھار آنے والی ایسی تباہ کن آفات کے اثرات سے پوری دنیا اور پورا عالمی نظام متاثر ہوتا ہے۔
سونامی کے خلاف عالمگیر تعاون
ایشیا اور الکاہل خطے کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (اسکیپ) کی ایگزیکٹو سیکریٹری آرمیڈا سالسیا ایلیسجابانا کا کہنا ہے کہ سونامی کے نتیجے میں بین الاقوامی تعاون کو بھی غیرمعمولی حد تک فروغ ملا اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ سرحدوں سے ماورا مسائل بین الاقوامی حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس آفت کے بعد عالمی برادری نے قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کے معاملے میں نمایاں اور تیزرفتار پیش رفت کی ہے۔
سنہ 2005 میں یونیسکو کے بین الحکومتی بحری جغرافیائی کمیشن کے تحت ’بحر ہند میں سونامی کی اطلاع دینے اور اس کے اثرات کو محدود رکھنے‘ کا نظام (آئی او ٹی ڈبلیو ایم ایس) قائم کیا گیا۔ آج 27 ممالک میں سونامی کے بارے میں اطلاع دینے کے مراکز قائم ہیں جو کسی جگہ زلزلہ آنے پر چند منٹ میں اس کی اطلاع پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی ریاست الاسکا میں شدید زلزلہ، سونامی کی وارننگ جاری
’اسکیپ‘ کے مطابق، اب سونامی کے حوالے سے حساس علاقوں میں 75 فیصد ساحلی آبادی کے پاس اس آفت کے بارے میں بروقت اطلاع حاصل کرنے کی سہولت موجود ہے جبکہ 2004 میں یہ تعداد 25 فیصد تھی۔
مزید برآں سونامی ریڈی پروگرام اور سونامی پروجیکٹ جیسے اقوام متحدہ کے اقدامات کے ذریعے مقامی رہنماؤں اور لوگوں کو تحفظ زندگی کے اقدامات اور وسائل کےحصول کے ضمن میں بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح، سونامی، آفات اور موسمیاتی حوادث سے بچاؤ کی تیاری کے لیے ملٹی ڈونر ٹرسٹ فنڈ تمام لوگوں کو سونامی سے بروقت آگاہی دینے کا نظام وضع کر رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور خطرات
موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آبی آفات کی رفتار اور شدت بھی بڑھتی جا رہی ہے جو عموماً زلزلوں اور آتش فشاں پھٹنے جیسے واقعات کے ساتھ آتے ہیں اور ان سے ہونے والی تباہی کی شدت کو بڑھا دیتے ہیں۔
’اسکیپ’ کا اندازہ ہے کہ ایشیا اور الکاہل خطے کے 43 ممالک میں 68 ملین لوگوں اور ساحلی علاقوں میں 2.3 ٹریلین ڈالر مالیت کے مادی ڈھانچے کو ان آفات سے خطرہ لاحق ہے۔
بحر ہند کے خطے میں ہی 2600 سے زیادہ اسکول، 1200 بندرگاہیں اور 140 بجلی گھر اس خطرے کی زد میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی اور زراعت کو درپیش چیلنجز
کمل کشور کا کہنا ہے کہ سونامی سے بچاؤ کے لیے اس کے بارے میں مؤثر آگاہی اور تیاری کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو اس خطرے کے بارے میں معلومات اور اطلاعات ملتی رہنی چاہییں۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 کے سونامی سے ہونے والی تباہی کو یاد رکھنا ضروری ہے اور آئندہ کسی ایسی آفت سے لوگوں اور مستقبل کی نسلوں کو تحفظ دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔