خیبر پختونخوا کابینہ میں شامل اہم وزرا کے خلاف مبینہ شکایتوں کے انبار کے بعد کابینہ میں ردوبدل کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے اور ذرائع کے مطابق اس ضمن میں 4 وزرا کو ہٹانے کے لیے اندرونی مشاورت جاری ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے چند وزرا کے خلاف شکایتیں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور تک پہنچی رہی تھیں، جس میں مبینہ کرپشن اور پارٹی ورکرز سمیت رہنماؤں کے کام نہ کرنے کی بھی شکایات شامل ہیں۔
’کچھ وزرا کے خلاف ان کے ساتھی وزیر بھی شکایت کی ہیں کہ ان کے کام بھی نہیں ہو رہے۔‘
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا حکومت 9 مئی سانحے کے انعام میں ملی، مولانا فضل الرحمان
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بھی ان وزرا کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں اور انہیں کارکردگی بہتر کرنے اور پارٹی ورکرز کے گلے شکوے دور کرنے کی ہدایت کرچکے تھے، جبکہ ایک وزیر کا پارٹی کے اندر حکومت مخالف گروپ کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا بھی الزام ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ جن کابینہ اراکین کے سر پر ڈی نوٹیفائی ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے، ان میں 3 صوبائی وزرا اور ایک معاون خصوصی شامل ہیں، ان کابینہ اراکین میں 2 ارکان گزشتہ روز منعقدہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا: 2024 میں علی امین گنڈاپور حکومت کی کارکردگی کیسی رہی؟
ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلی پر بھی کافی دباؤ ہے اور صوابی سے تعلق رکھنے والے ممبرز پارٹی میں بھی ان کا زیادہ اثر و رسوخ ہے، جنہیں ہٹائے جانے سے علی امین پر پارٹی میں دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے روپوش رہنما مراد سعید کا صوبائی کابینہ کی تشکیل میں اہم کردار ہے اور ان کی خواہش ہے کہ پارٹی یوتھ ممبرز کو زیادہ نمائندگی دی جائے، اس ضمن میں حال ہی میں مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے نوجوان رہنما کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے، جو مراد سعید کے قریبی بتائے جاتے ہیں۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
گزشتہ روز وزیر اعلی ہاؤس پشاور پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی کابینہ سے برطرفیوں بازگشت سنا دی، پی ٹی آئی رکن اسمبلی لائق محمد نے اسمبلی میں اس پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ کابینہ سے برطرفیوں کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔
’یہ سازش ہے جو مخالفین کر رہے ہیں، ہماری ساتھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں لہذا کسی کو ہٹانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘
اسپیکر صوبائی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے لائق محمد نے کہا کہ ایسی بے بنیاد افواہ پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، تاہم ابھی تک کسی حکومتی ترجمان نے اس پر کوئی موقف نہیں دیا ہے۔