جاپانی سیٹھ، اووو اووو اور ہم

جمعرات 9 جنوری 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈونلڈ ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں۔ وہ حقیقت پر نظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے لیتے ہیں۔ مئی 2019 میں ٹوکیو کی امریکی ایمبسی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ٹرمپ نے مجھ سے پوچھا کہ امریکا میں کتنی سرمایہ کاری کرو گے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اگر بات سرمایہ کاری اور روزگار پیدا کرنے سے متلعق ہو تو ٹرمپ کی اسی میں دلچسپی ہے۔

وہ ایک بزنس مین ہے اس کے ساتھ تعلق یکطرفہ نہیں رہتا۔ وہ کاروباری تعلق ہی چاہتا ہے۔ یہ خیالات جاپانی کمپنی ہٹاچی کے چیئرمین توشیکی ہیگاشیارا کے ہیں۔ توشیکی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اگر وہ کیا جو وہ اپنی الیکشن کمپین میں کہتا رہا ہے، امیگریشن پر روک لگائی، تو اس کا نتیجہ امریکا میں مہنگائی کی صورت نکلے گا۔

توشیکی کا کہنا ہے کہ ہم (ہٹاچی) سمجھتے ہیں دنیا میں 5 بلاک ہیں۔ شمالی امریکا، یورپ اور چین  3 مین بلاک ہیں۔ ہٹاچی نے کووڈ میں امریکا اور چین دونوں بلاک کو کچھ نہیں بھیجا۔ ہم ٹرمپ کے ٹیرف سے محفوظ کمپنی ہیں۔ جو ہم کر سکتے ہیں وہ امریکا کی انفارمیشن ٹیکنالوجی جائنٹ نہیں کر سکتے۔ ٹوئٹر، فیس بک، ایپل، گوگل اور ایمیزون، ہماری طرح  ایٹمی بجلی گھر، ڈیٹا سینٹر، ٹرینیں اور ریلوے ٹریک نہیں بنا سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: 2025 میں پاکستان کے بارے اے آئی کی 5 پیشگوئیاں

ہٹاچی چین میں ایک ٹریلین ین کا بزنس کرتی ہے۔ ہر سال میری چینی وزیر اعظم سے ملاقات ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کچھ برا ہو گا۔ البتہ ہم ہر صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ ہم دنیا کے باقی 4 بلاک میں 9 ٹریلین ین کا کاروبار کرتے ہیں۔ اگر کچھ برا ہوتا ہے تو ہم پھر بھی باقی جگہوں پر کماتے رہیں گے۔

برے حالات کی مثال دیتے ہوئے توشیکی نے گلوبل لاجک کا ذکر کیا۔ یہ امریکی آئی ٹی کمپنی ہٹاچی نے خرید لی تھی۔ یوکرین کے 7 ہزار انجینیئر اس کمپنی کے ساتھ منسلک تھے۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد صرف ایک ہفتے کے اندر گلوبل لاجک نے اپنے آپریشن کو پرانی اسپیڈ پر بحال کر لیا۔ یہ بحالی اس متبادل بزنس پلان کی وجہ سے ہوئی، جو کمپنی نے یوکرین روس کی پچھلی جنگ کے موقع پر ہنگامی حالت کے لیے بنا رکھا تھا۔

یہ جاپانی سیٹھ کے خیالات ہیں اور ہمارے سیٹھ ۔ چلیں چھوڑیں رہنے دیں۔ اک آئی ٹی کمپنی اک جنگ سے سبق سیکھ کر متبادل پلان تیار رکھتی ہے۔ یوکرین کی دوسری جنگ سے گلوبل لاجک کا کام ایک ہفتہ متاثر ہو کر اپنی رفتار پر واپس بحال ہو جاتا ہے۔ ہم 40 سال سے اپنی پرائی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ گلوبل لاجک کو ہم سے پلان لینا چاہیے تھا۔ ضرور لیتی اگر ہم نے اپنے لیے کوئی بنانے کی زحمت کی ہوتی۔

سیٹھ توشیکی کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے چین سے ایک ٹرلین کماتے ہیں۔ نہیں کمائیں گے تو باقی 4 جگہوں سے 9 ٹریلین کماتے رہیں گے۔ الحمدللہ ہم کہیں سے بھی نہیں کماتے۔ اس لیے متبادل جگہ سے کمانے کا کیوں سوچیں۔ ہمارے ہاں کمانے کی بجائے مانگ کر کھانے والے لیڈر رہے ہیں۔ تو پالیسیاں بھی ایسی ہی ہیں کہ وہ نہیں دے گا تو مر تھوڑی جائیں گے۔ دوسرے سے مانگ لیں گے۔

مزید پڑھیے: کپتان کی وہ طاقت جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں

سیٹھ توشیکی نے ٹرمپ کی طبعیت کا اندازہ سیٹھوں کی طرح لگایا ہے۔ ٹرمپ کو بزنس چاہیے جہاں سے وہ کما سکے۔ اس کو روزگار فراہم کرنے میں دلچسپی ہے اور منافع میں بھی ہو گی۔ ہم پاکستانیوں کو اس طرح سوچ کر دیکھنا چاہیے۔ ہمارے پاس بزنس کے حوالے سے ایسا کیا ہے جس سے امریکا اور ٹرمپ کا فائدہ ہو۔ ہم بھی کمائیں یا ہمارے ہاں روزگار بڑھے۔

پاکستانی حکومتیں کاروبار کمائی کو نظر میں رکھ کر پالیسی نہیں بناتی ہیں۔ ہم اپنے معاہدوں پر قائم نہیں رہتے۔ جب بجلی کا بحران ہو تو بجلی کمپنیوں کو زیادہ منافع بتا کر گھیر لیتے ہیں۔ بعد میں بل دیتے ہوئے جب چیخیں نکلتی ہیں تو معاہدے کرنے والے کی جان کو روتے ہیں۔

ہمارے سیکیورٹی سفارتی معاملات کو بزنس پر ترجیح حاصل ہے۔ بزنس کو ترجیح دیں تو ویسے ہی سیکیورٹی اور سفارتی برتری حاصل کر لیں گے۔ کپتان نے ایک کروڑ نوکریوں کی بات کر کے نوجوانوں پر مشتمل بڑی آبادی کی نبض پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ بات کی حد تک ہی رہ گیا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو اب ٹرمپ ہی ٹکرے گا

فیل گڈ تاثر بنانے والے کچھ کام کرنے۔ حالات مطابق متبادل پالیسیاں پہلے سے بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سیکھنا چاہیں تو ہٹاچی کے چیئرمین سیٹھ توشیکی کی باتوں سے ہی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نہیں تو میاں محمد شہباز شریف کی طرح اووو اووو کی آوازیں نکال کر دل خوش کر سکتے ہیں۔ وہ بھی جاپان سے ہی یہ اووو اووو سیکھ کر آئے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp