پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کر دیا گیا ہے۔ جج احتساب عدالت ناصر جاوید رانا اب 17 جنوری کو فیصلہ سنائیں گے۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کہا کہ میں صبح 8 بجے سے عدالت میں موجود ہوں، عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی عدالت پیش نہیں ہوئے، جبکہ انہیں 2 مرتبہ پیش ہونے کے لیے پیغام بھی بھیجا گیا۔ لہٰذا اب آئندہ سماعت پر فیصلہ سنایا جائے گا۔ جج اڈیالہ جیل سے روانہ ہو گئے۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 18 دسمبر 2024 کو فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پہلے 23 دسمبر 2024 کو فیصلہ سنانے کی تاریخ دی گئی جو بعد میں 6 جنوری 2025 تک مؤخر کردی گئی تھی۔ بعد ازاں 13 جنوری کو فیصلہ سنانے کا دن مقرر کیا گیا۔
190 ملین پاؤنڈ کیس کا ریفرنس یکم دسمبر 2023 کو دائر ہوا تھا۔ 6 جنوری 2024 کو 6 شریک ملزمان مرزا شہزاد اکبر، فرحت شہزادی و دیگر کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس اور 5 بے وقوف
بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر 27 فروری 2024 کو فرد جرم عائد ہوئی تھی۔ جس کے بعد نیب نے 35 گواہان کے بیانات ریکارڈ کروائے 24 گواہان کو ترک کیا۔ اہم گواہان میں سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق وزیر اعلیٰ پرویزخٹک نے بیان ریکارڈ کروایا تھا۔ سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا، تاہم ملزمان نے اپنے دفاع میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا۔
یاد رہے کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا جیل ٹرائل ایک سال میں مکمل ہوا اور عمران خان کے خلاف یہ واحد کیس ہے جس کی سماعتیں ایک سال تک چلیں۔ نیب نے 13 نومبر 2023 کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈالی تھی اور نیب نے 17 دن تک عمران خان سے اڈیالہ جیل میں تفتیش کی تھی۔ یکم دسمبر 2023 کو نیب نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا تھا جس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی سے جیل میں تفتیش کی گئی تھی۔
عدالت نے 27 فروری 2024 کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی تھی۔ مقدمے کی 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔
190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458 کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کے فیصلے میں تاریخ پر تاریخ کیوں؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے 3 دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: ’عمران خان کیخلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ لکھا جا رہا ہے‘
نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ‘
اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا اور بریفنگ دی اور کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض بھی طلب کیا گیا تھا
این سی اے کی رقم ملک ریاض کو کیسے واپس ملی؟
تفصیلات کے مطابق 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔
تاہم پاکستان پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈز سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں ہوئے، یہ سراسر جھوٹ ہے، خواجہ آصف
اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔ اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ بھی سیل کردیا گیا تھا۔
ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی راز داری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
اس حوالے سے اس وقت ٹویٹر پر اپنے مؤقف میں ملک ریاض نے کہا تھا کہ کچھ عادی ناقدین این سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی اور ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا۔‘