سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نسیم اشرف نے اپنی کتاب رنگ سائیڈ میں کچھ تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے مختصر دورے کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سے واش روم میں 5 منٹ کے لیے ایک خفیہ ملاقات کی جس میں انہوں نے نواز شریف کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز کے دور میں پھانسی نہ دینے کی گارنٹی حاصل کی۔
اپنی کتاب میں وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ صدر کلنٹن کو امریکی حکومت نے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن اس کے باوجود وہ جنرل مشرف کی دعوت پر پاکستان آئے اور سابق فوجی آمر نے امریکی صدر کو نواز شریف کو پھانسی نہ دینے کی یقین دہانی کروائی۔
یہ واقعہ اپنے طور پر نہ صرف سنسنی خیز ہے بلکہ حقیقت سے کچھ دور بھی لگتا ہے اور بطور ایک صحافی مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سپر پاور ملک کا صدر مختصر دورے پر پاکستان آئے اور اپنا پیغام دینے کے لیے اسے واش روم میں خفیہ ملاقات کرنی پڑے۔ اسی دعوے اور اس کی سنسنی خیزی کی اصلیت جاننے کے لیے میں نےاس وقت کے کچھ سینیئر بیوروکریٹس سے حقیقت پوچھی جو کہ صدر کلنٹن کو دی جانے والی اس ہائی ٹی کی تقریب میں شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پانامہ کینال اور ٹرمپ
نسیم اشرف صاحب نے اپنی کتاب کی پبلسٹی اور لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے دراصل اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ حقائق اس سے کچھ مختلف تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ صدر بل کلنٹن جنرل مشرف کی دعوت پر نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اس خواہش کا اظہار کیا یا یوں کہیں کہ He invited himself (خود کو مدعو کیا)۔ ہوا کچھ یوں کہ صدر کلنٹن اپنا دورہ ہندوستان مکمل کرکے جب واپس جا رہے تھے تو انہوں نے پاکستانی حکومت کو پیغام بھیجا کہ وہ مختصر وقت کے لیے پاکستان آنا چاہ رہے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک بھلا کب ایک امریکی صدر کو روکتا۔
دوسری بات یہ کہ سفارتی پروٹوکول کے مطابق ایک ملک کا صدر کسی دوسرے ملک جب جاتا ہے تو وہ اپنے ہم منصب کا مہمان ٹھہرتا ہے۔ جنرل مشرف ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے اس لیے ان کے پاس جانے کی بجائے وہ سیدھا ایوان صدر میں صدر پاکستان کے پاس آئے۔ اس لیے اس مختصر دورے کی تقریب کا انعقاد بھی ایوان صدر میں ہوا اور انہوں نے صدر رفیق تارڑ سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ ان کے دورے کی آفیشل تصاویر بھی صدر تارڑ کے ساتھ پبلک کی گئیں۔
تیسری بات یہ کہ امریکی صدر بل کلنٹن کو امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے دورے سے کسی سیکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے نہیں روکا گیا تھا بلکہ اس وقت پاکستان میں کیونکہ نیا نیا مارشل لا کا نفاذ ہوا تھا اور امریکی یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ کسی فوجی آمر سے ملنے ایک امریکی صدر پاکستان آیا ہے۔ اس سے جنرل مشرف کی آمریت کو تقویت ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کلنٹن کے اس دورے کی کوئی بھی تصویر جنرل مشرف کے ساتھ آفیشلی ریلیز نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیے: حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات کا مقدر ناکامی کیوں؟
اب آتے ہیں ٹوائلٹ میں چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات کے واقعے پر۔ حقیقت کچھ یوں ہے کہ ایوان صدر کی 5ویں منزل پر ایک banquet hall ہے۔ امریکی صدر کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد اسی ہال میں ہوا۔ جب ایوان صدر میں امریکی صدر بل کلنٹن آئے تو پروٹوکول کے مطابق ان سے تمام اہم عہدیداروں کا تعارف کرایا گیا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی ان کے ساتھ متعارف کرایا گیا۔
باقاعدہ تقریب کے اختتام کے بعد تقریب کے تمام شرکا ہال میں ہی سماجی گپ شپ کے لیے مختلف ٹولیوں میں بات چیت میں مصروف ہوگئے۔ صدر کلنٹن چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی ہال کے ایک کونے میں علیحدہ لے گئے اور کہا ’مسٹر چیف جسٹس اگر میرے دوست نواز شریف کو کچھ ہوا (پھانسی دی گئی) تو میں یہ ensure کراؤں گا کہ اس کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو‘۔ جس پر چیف جسٹس نے ان کو یقین دہانی کروائی کہ نواز شریف کو سزائے موت نہیں ہوگی۔ یہ ملاقات گو کہ ہال کے ایک کونے میں ہوئی لیکن سب شرکا کے سامنے ہوئی جو اس وقت اس banquet hall میں موجود تھے۔ اس کے بعد سب تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ پھر کس طرح جنرل مشرف نے نواز شریف کو ایک معاہدے کے تحت ملک بدر کرتے ہوئے سعودی عرب بھیج دیا۔
مزید پڑھیں: ملٹری کورٹس سے سویلینز کو سزائیں
حالات و واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا عموماً لوگ کرتے ہیں اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یا اپنی تصانیف کی پبلسٹی کے لیے اس طرح کے چٹکلے چھوڑے جاتے ہیں لیکن واقعات کو اس طرح بھی بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ حقیقت سے کوسوں دور محسوس ہو۔ یہ بات عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ایک امریکی صدر پاکستان آکر کسی واش روم میں ملک کے چیف جسٹس سے خفیہ ملاقات کرے گا۔ اور ویسے بھی یہ کسی امریکی صدر کے لیے سفارتی پروٹوکول کے حساب سے بھی شایان شان نہیں تھا۔