یہ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟

ہفتہ 25 جنوری 2025
author image

ابنِ فاضل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گوانزو سے ایو کی فلائٹ میں ایک بھارتی ہمسفر ہوئے، تعارف پر معلوم ہوا کہ وہ دہلی سے ہیں اور خواتین کے فینسی پرس بناتے ہیں اور یہاں سے ان کے لیے رنگدار ریگزین خریدنے آتے ہیں۔ مزید کا سلسلہ آگے بڑھا تو مزید معلوم ہوا کہ وہ ہر 3 ماہ بعد چین آتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ وہاں سے ہی آرڈرز کیوں نہیں دے دیتے، ہر 3 ماہ بعد آنا کیوں ضروری ہے؟ تو اس پر انہوں نے ایک حیران کردینے والی بات بتائی۔

’کہنے لگے کہ گوانزو میں خواتین کے پرس بیچنے والی مارکیٹ میں ہر دکان پر ہر 3 ماہ بعد سب کچھ بدلا ہوا ہوتاہے، پرس کا میٹیریل، ڈیزائن، رنگ، ٹیکسچر سب کے سب نئے ہوئے ہوتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہر 3 ماہ بعد سب سے پہلے مارکیٹ جاتا ہوں وہاں نئے میٹیریل اور ڈیزائن کی تصاویر لیتا ہوں پھر ’ایو‘ کے قریب فیکٹریوں میں جاتا ہوں اور جو ڈیزائن وہاں دکانوں پر چنے ہوتے ان کا خام مال آرڈر کرتا ہوں۔

اس طرح ہم اپنے شہر میں ہر تیسرے ماہ نئے میٹیریل اور نئے ڈیزائن متعارف کرواتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اس وقت اپنی مارکیٹ کے لیڈر ہیں۔

آپ ان دونوں باتوں کا تصور کریں کہ وہ کیسے لوگ ہیں؟، جو ہر تیسرے ماہ نئے ڈیزائن کے حصول کے لیے دہلی سے گوانزو کا سفر کرتے ہیں اور وہ کیا لوگ ہوں گے جو ہر 3 ماہ بعد نئی چیزیں سوچ کر ان کو بناکر دکانوں میں لے آتے ہیں اور پھر اس سوچ کا موازنہ اپنے رویوں سے کریں۔

پچھلے دنوں لاہور میں خواتین کی مصنوعات کی بہت بڑی نمائش تھی، 2 سو کے قریب اسٹال ہوئے ہو‍ں گے، سارے اسٹال صرف اسی آس پر دیکھے کہ شاید کوئی نیا آئیڈیا کوئی، نئی چیز، کوئی متاثر کن تخیل کی عملی صورت نظر آجائے۔۔۔۔۔مگر وہی سلے ان سلے کپڑے، چٹنی اچار، مربے، چائنہ کی بنی جیولری، پرس اور ڈیکوریشن آئٹم۔۔۔اور۔۔۔بس‘۔

صرف ایک صاحبہ شاید حیدرآباد سے تشریف لائیں تھیں، جنہوں نے کچھ مینیچر بنا رکھے تھے جو مقناطیس کی مدد سے فریج کے باہر لگائے جاسکتے ہیں، ان کا کام مختلف، تخیل نیا اور اشیا خوبصورت اور قابل ستائش تھیں، یا پھر ایک ڈی ہائیڈریٹڈ فوڈ کا اسٹال تھاجو ہماری ایک بہن فوزیہ بدر نے لگا رکھا تھا، اس میں کچھ نیا اور مختلف دیکھنے کو ملا اور پھر باقی سب وہی کچھ۔

بہرحال میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خواتین کو یہ کام نہیں کرنا چاہییں، ضرور کریں مگر، مگر انہوں نے خود پر جدید ٹیکنالوجی اور جدید اشیا بنانے کے دروازے بند کیوں کررکھے ہیں؟۔ جو سینکڑوں ہزاروں نئے میدان ہیں، شعبے ہیں ان میں کام کیوں نہیں کرتیں۔

مثال کے طور پر بیجنگ میں ایک فیکٹری سے ہم نے لوہے کی جانچ کرنے والی جدید الیکٹرانکس مشینیں خریدیں وہ فیکٹری ایک عورت کی ملکیت تھی۔ گوانزو میں سلیکان ربر سے بنی اشیا کی ایک بہت بڑی فیکٹری خاتون چلارہی تھی۔

یوہان میں انجن کے عالمی معیار کے پرزے  بنانے اور آدھی دنیا کو برآمد کرنے والی فیکٹری خاتون کی تھی۔ شنگھائی میں ایک خاتون جہازوں کے بہت ہی زبردست چھوٹے پلاسٹک کے ماڈلز بنارہی تھیں جو ہر ٹریول ایجنسی میں پڑے ہوتے ہیں، شوقین لوگ گھروں میں بھی رکھتے ہیں۔

ٹھیک ہے سرِ دست ہم توقع نہیں کرسکتے کہ آپ اُٹھ کر لیپ ٹاپ اور موبائل بنانا شروع کردیں مگر بہت سے نہایت سادہ اور آسان کام ہیں جو کیے جاسکتے ہیں۔

مثلا مصنوعی جیولری، ہیربینڈز اور کلپس، موتی، لیسز، باورچی خانے کی اشیا، برتنوں کے اسٹینڈز، ٹوتھ پکس، نمک مرچوں والی چھوٹی بوتلیں، پلاسٹک کی دیگر  اشیا، اسی طرح سرامکس کے گلدان آرٹ پیسز اورگملے وغیرہ۔

چھوٹے سی این سی راؤٹر پر لکڑی، پلاسٹک اور پیتل کی سینکڑوں اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے لاتعداد اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔

چھوٹی خود کار پلاسٹک کی مولڈنگ مشینوں پر ہزاروں اشیا بنائی جاسکتی ہیں۔ ڈیجیٹل شوگر پرنٹرز سے کیکس، بسکٹس اور کھانے پینے کی دیگر اشیا پر تصاویر اور کارٹون وغیرہ بنا کر بچوں کی سالگرہ کو یاد گار بنایا جاسکتا ہے۔

چھوٹی ڈیجیٹل پرنٹر مشینوں اور چھوٹی کمپیوٹرائزڈ کڑھائی کی مشینیں جن کی قیمت 5 سے 7 لاکھ ہوتی ہے کو کسٹمائزڈ ڈیزائن کے کپڑے بنانےکے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ موبائل فون کے کورز اور فینسی اسیسریز بنائی جاسکتی ہیں۔ دنیا میں آج کل جو اور گندم وغیرہ سے بنے برتنوں کا چلن عام ہورہا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں اور استعمال شدہ اشیا کے ریپرز کی ری سائیکلنگ میں بھارت نے درجنوں سٹارٹ اَپس شروع کیے ہیں جن میں وہ ملبوسات سے لیکر پرس اور جوتے تک بنارہے ہیں ان میں بہت زیادہ پراجیکٹس خواتین نے شروع کیے ہیں۔

ہم نے کیوں مرد و زن کے فکروعمل کے میدان کو محدود کررکھا ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ ہمارے لوگ بالخصوص ہماری خواتین بھی پرانے کاموں کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو بھی زیر استعمال لاکر اپنا اور اپنے ارد گرد لوگوں کا معیار زندگی بلند کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp