سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے

منگل 28 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کی۔آئینی بینچ نے نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کیساتھ منسلک کرنے کا حکم دیا ہے۔ آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے ہیں۔

آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 13 جنوری کو آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے متعلق نوٹسز جاری کیے تھے جبکہ 16 جنوری کو کیس دوبارہ پرانے بینچ میں لگانے کا حکم دیا تھا۔

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو آگاہ کیا کہ حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ روز توہین عدالت فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز پر نظر ثانی دائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: ججز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے کا معاملہ، سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عہدے سے فارغ

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کا کیس اپنے بینچ میں لگانے کا حکم دیا ہے، کیا اس آرڈر کی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر صرف چند کو نہیں سب کو ہے، جو کام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ کونسی قیامت آگئی تھی، یہ بھی عدالت ہی ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ اور عدالتوں نے رہنا ہے، ہمیں ہی اپنے ادارے کا خیال رکھنا ہے، کوئی پریشان نا ہو اس ادارے کو کچھ نہیں ہونا۔

جسٹس عائشہ ملک کا کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس سننے سے معذرت، تحریری وجوہات جاری

مزید پڑھیں: توہین عدالت آئینی کمیٹیوں کے خلاف ہونی چاہیے: سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

جسٹس عائشہ ملک نے کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس سننے سے معذرت کی تحریری وجوہات جاری  کر دی ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ بحیثیت جج، ہمیں عدالتی احکامات اور انتظامی احکامات کے درمیان واضح فرق کو سختی سے برقرار رکھنا چاہیے۔ عدالتی احکامات کی تقدیس کو محفوظ اور برقرار رکھنا چاہیے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے احکامات پر عمل ہو۔ ہمارے احکامات کسی کے ذریعہ نظر انداز یا خلاف ورزی نہ کی جائے۔

عجیب بات ہے 16 جنوری کے حکمنامے میں کہا گیا کیس کو سنا گیا سمجھا جائے، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس کیس کا ایک حکمنامہ بندیال صاحب کے دور میں 7 فروری 2021 کا بھی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عجیب بات ہے 16 جنوری کے حکمنامے میں کہا گیا کیس کو سنا گیا سمجھا جائے، یا کیس سنا گیا ہوتا ہے یا نہیں سنا گیا ہوتا ہے۔ یہ سنا گیا سمجھا جائے یہ اصلاح کہاں سے آئی؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میرے پاس 13 جنوری کے 2 حکمنامے موجود ہیں، ایک حکمنامے میں کہا گیا کیس کی اگلی تاریخ 27 جنوری ہے، دوسرے حکمنامے میں کہا گیا کیس کی اگلی تاریخ 16 جنوری ہے۔ حکمنامے میں کیس کی تاریخ تبدیل کی گئی۔

مزید پڑھیں: جوڈیشل کمیشن اجلاس: آئینی بینچ کو 6 ماہ کے لیے توسیع دے دی گئی

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کو رول 27 اے کا نوٹس دیے بغیر کیسے کہا گیا کیس سنا ہوا سمجھا جائے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ہم نے ریگولر بینچ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا؟ لیکن ہم نے تو صرف کیس سنا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل کے فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، فیصلے میں تو ججز کے نام تک لکھ دیے، غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈر ہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم 13 جنوری اور 16 جنوری کے 2 رکنی بینچ کے حکمناموں کو آرٹیکل 191 کی شق 5 کے تحت چیلنج کرنے جا رہے ہیں۔

آئینی بینچ نے جسٹس منصورعلی شاہ کا 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لے لیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 13 جنوری کو آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے متعلق نوٹسز جاری کیے تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 16 جنوری کو کیس دوبارہ پرانے بینچ میں لگانے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ججز کمیٹی، بینچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس محمد علی مظہر اور بیرسٹر صلاح الدین میں تلخ جملوں کا تبادلہ

جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے تاثر مل رہا ہے آپ یہاں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ آپ میری ساکھ پر سوال اٹھائیں گے تو ویسا ہی سخت جواب دوں گا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بات کسی اور طرف جا رہی ہے، ایسے نہ کریں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جسٹس جمال نے کہا ابھی ہم اس کیس کو یہاں آگے نہیں بڑھا رہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ یا تو آپ کہیں میرٹ پر کیس چلانا ہے تو یہیں دلائل دیتا ہوں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نہیں فائل تو ابھی بند ہے، ہم تو اپنی سمجھ کے لیے آپ سے معاونت لے رہے ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ فائل بند ہے تو پھر آپ مفروضوں پر سوال پوچھے جائیں میں مفروضوں پر جواب دیتا ہوں۔

آئینی بینچ کا نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کیساتھ منسلک کرنے کا حکم

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مجھ سے زیادہ عدلیہ کی آزادی کسی کو عزیز نہیں۔ فرض کریں کل تمام ججز کو جوڈیشل کمیشن کے ذریعے آئینی بینچز کو نامزد کردیا جاتا ہے تو کیا 26ویں ترمیم پر اعتراض ختم ہو جائے گا؟

مزید پڑھیں: ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں، جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 2 رکنی بینچ کے فیصلے سے تو عدالتی عملہ انتظامی معاونت کرنے میں خوف کا شکار ہو جائے گا۔ جسٹس نعیم افغان نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ 13 جنوری کے منصور علی شاہ کے عدالتی بینچ کے حکم سے ایسا لگتا ہے کہ آپ ہی ذمہ دار ہیں، اب آپ نتائج بھگتنے کو تیار نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ایک مرتبہ کہا کہ سارے کیسز آئینی بینچ کو جائیں گے تو ہم کیا کریں گے۔ لیکن خود منصور علی شاہ آئینی معاملات آئینی بینچ کو بھیجتے رہے ہیں۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp