بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس

منگل 18 فروری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔

فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سادہ لفظوں میں بات کی جائے تو سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جاسکتا، سویلنز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں:فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جس پر سلمان اکرم راجہ کا موقف تھاکہ انگلینڈ میں کورٹ مارشل فوجی نہیں بلکہ آزاد ججز کرتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تقاضوں کے تحت ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہیے، دنیا بھر کے ملٹری ٹریبونلز کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں عدالتوں میں جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف

سلمان اکرم راجہ کے مطابق یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے مجبور کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا۔

جس پر سلمان اکرم راجہ بولے؛ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے پھر دریافت کیا کہ کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہوگا۔

مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل

سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں، شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق ایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول نہیں تھا، پہلے تو ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار فوجداری ٹرائلز کرتے تھے، کہا گیا اگر ڈی سی فوجداری ٹرائل کر سکتا ہے تو کرنل صاحب بھی کر سکتے۔

مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام ممالک بین الاقوامی اصولوں پر عملدرآمد کی رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کرتے ہیں، جس پر یو این کی انسانی حقوق کمیٹی رپورٹس کا جائزہ لے کر اپنی رائے دیتی ہے۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے اجلاسوں میں پاکستان کے فوجی نظام انصاف کا جائزہ لینے کے بعد یو این کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان میں سویلنز کے کورٹ مارشل پر تشویش ظاہر کی تھی۔

مزید پڑھیں:سندھ حکومت نے ملٹری کورٹ میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد نہیں، رپورٹ میں حکومت کو فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت دینے کا کہا گیا، اسی طرح یورپی کمیشن کے مطابق 9 مئی کو احتجاج والوں کا کورٹ مارشل کرنا درست نہیں۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق یورپی یونین نے ہی پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس دے رکھا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں یہی نکات اٹھائے ہیں، ہزاروں افراد کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہو سکتا ہے تو ان 105 ملزموں کا کیوں نہیں۔

ٹی وی سیٹ کا تذکرہ اور پاکستانی فیڈلی

دوران سماعت آئینی بینچ کے ارکان سے سلمان اکرم راجہ کے درمیان مکالمے میں ٹی وی سیٹ کا بھی تذکرہ رہا، سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ انگلینڈ میں ایک فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا تھا جسے یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے کالعدم قرار دیدیا تھا۔

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ فیڈلی ذہنی تناؤ کا شکار تھا اور اس نے فائرنگ کی، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ فیڈلی کی فائرنگ سے بھی ایک ٹی وی ٹوٹ گیا تھا، 9 مئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی بھی توڑا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی واقعات میں ٹی وی توڑنے والے شخص سے ملاقات ہوئی تو وہ بیچارہ شرم سے ڈوبا ہوا تھا، 4 جماعتیں پاس بے روزگار انسان کو ہمارے معاشرے نے کیا دیا۔

اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ انفرادی باتیں نہ کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے برطانوی فوجی فیڈلی سے سلمان اکرم راجہ کی ملاقات کے بارے میں استفسار کیا تو جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے لقمہ دیا کہ انہوں نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہےْ

مزید پڑھیں:اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ جسٹس جمال مندوخیل

سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ آپ نے کہا میرا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا، 9 مئی والے روز وہ کرکٹ کھیلنے تو نہیں گیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ جس قانون کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا وہ قانون کیا ہمارے سامنے ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان بولے؛ میں وہ قانون ریکارڈ پر لے آؤں گا۔

مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف فیصلہ پر اپیل: اٹارنی جنرل اصل فیصلہ میں غلطی دکھائیں، جسٹس محمد علی مظہر

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا وہ قانون محض کلبھوشن کے لیے لایا گیا، عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ ایسے جاسوس جنہیں عالمی عدالت انصاف سے اجازت ہو انہیں اپیل کا حق ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کوئی جج اخلاقیات اور ماضی کے حالات و واقعات کی بنیاد پر وہ الفاظ آئین میں شامل نہیں کر سکتا جو آئین کے متن میں نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر

سلمان اکرم راجہ کے مطابق اگر ایسا کرنے کی اجازت دیدی گئی تو یہ بہت خطرناک ہوگا، جج کو یہ اختیار نہیں ملنا چاہیے وہ ایسے الفاظ آئین میں شامل کرے جو آئین کا حصہ ہی نہیں ہیں۔

دوران سماعت سلمان راجہ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے نظرثانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل میں بھی یہی اصول طے ہوا تھا کہ اپنی مرضی کے الفاظ کو آئین میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک ہونے والے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب کرلیں

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان راجہ کی جانب سے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل کے فیصلے کو سراہنے کو قابل ستائش قرار دیا، جس پر وکیل فیصل صدیقی بولے؛ لگتا ہے آج کا دن عدالتی اعتراف کا دن ہے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھاکہ اس آئینی بینچ نے صحیح معنوں میں تشریح کرنی ہے۔

مزید پڑھیں:آئین سب سے سپریم لا ہے جو سویلینز کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، سپریم کورٹ

سلمان اکرم راجہ کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر آئینی بینچ نے سماعت کل تک ملتوی کردی، عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کل عدالت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔

دوران سماعت عزیر بھنڈاری نے الفاظ کی من پسند تشریح کے ضمن میں ہلکھے پھلکے انداز میں ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ان کے استاد نے بلیک بورڈ پر’توبہ توبہ شراب سے توبہ‘ لکھنے کے بعد کہا کہ ایک شخص اس جملے کو پڑھے گا ’توبہ توبہ، شراب سے توبہ‘ جبکہ دوسرا یوں بھی پڑھ سکتا ہے، ’توبہ توبہ اور شراب سے توبہ؟‘

مزید پڑھیں:ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر عدالت کو مطمئن کریں، آئینی بینچ کی خواجہ حارث کو ہدایت

اس وضاحت پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، تاہم اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک اور مثال دیتے ہوئے بتایا کہ انار کلی بازار میں ایک دکان کے باہر لکھا تھا ’بڑھیا کوالٹی‘ جسے ایک صاحب نے ’بڑھیا کو اُلٹی‘ سے تعبیر کیا، اس موقع پر کمرہ عدالت ایک مرتہ پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp