فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی یا پرائیویٹ بل لایا؟ جسٹس امین الدین خان

منگل 25 فروری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل جاری ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟ عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق اوریجنلی دستیاب نہیں تھے۔ سویلینز کی حد تک کریمنل دفعات پہ ٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے۔ آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھی جو آرمڈ فورسز کے حوالے سے تھیں۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیس: سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ یہاں تعلق سے کیا مراد ہے؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں، کس قانون کے تحت کیا جا سکتا ہے وہ متعلقہ ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ ٹو ون ڈی میں سویلینز کا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ٹو ون ڈی کے حوالے سے ایف بی علی میں کچھ نہیں کہا گیا، ٹرائل دفعات پر نہیں اسٹیٹس پر ہوگا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ محرم علی کیس اور راولپنڈی بار میں دہشتگردی کی دفعات تھیں۔ فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ان کی سیکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہوگی؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟ جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 103 ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے، میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق کیس کی سماعت میں وقفہ۔ وقفے کے بعد بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری دلائل جاری رکھیں گے۔

مختصر وقفے کے بعد عزیر بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے افسر کا حکم زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں فوج دوران جنگ ہی جواب دے سکتی ہے گھر پر حملے کا نہیں۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل: آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، جسٹس جمال مندوخیل

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی کا بانی پی ٹی سے متعلق وکیل سے اہم مکالمہ

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوا تو دفاع کیوں نہیں کیا گیا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ ایک بات کر رہے ہیں آپ کے مؤکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کا مؤکل کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں ان سے بات کروں گا۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کمرہ عدالت سے جو باہر ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ سیاست کی بات نہیں حقیقت کی بات ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اب معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جرم کی نوعیت پر نہیں ملزم کے اسٹیٹس کو مد نظر رکھ کر فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا۔ ملزم کا اسٹیٹس دیکھنا ہوگا کہ وہ آرمڈ فورسز سے تعلق رکھتا ہے یا سویلین ہے۔ امریکی عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ملزم کے اسٹیٹس کو دیکھ کر ٹرائل پر فیصلہ دیا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مگر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق تو گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے، گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ٹرائل کا مطلب ملزم کا اسٹیٹس نہیں جرم دیکھ کر ٹرائل ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنے لوگوں تک تو یہ اختیار استعمال کرسکتی ہے مگر سویلین کی حد تک نہیں، لیکن اگر فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی تو کسی کے لیے بھی نہیں کرسکتی۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے تحت آرمڈ فورسز کے لوگوں کو بینادی حقوق حاصل نہیں، جسٹس منیب اختر نے تفصیلی فیصلے میں یہی بات کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آرمڈ فورسز میں لوگ آئین کے آرٹیکل 8(3) کے تحت آتے ہیں تو انہیں آرٹیکل 10 اے بھی حاصل نہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹرائل پھر چاہے جہاں مرضی ہو؟

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سلمان اکرم راجا نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے۔ بھارت میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے۔ کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا۔ اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی۔ میری تجویز پر ہائیکورٹ کے ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے انٹرویو شروع ہوئے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن آرہا تھا، یہ تو ہماری حالت تھی۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں اعتزاز احسن صاحب نے آپ کو بتایا کہ ٹرائل کیسے ہوتا تھا، آج بھی بانی پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ہو رہا ہے۔ فئیر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے لقمہ دیا کہ ہاں ہاں آج کل تو خطوط کا تنازع بھی چل رہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بانی پی ٹی کے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل میں تو موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، نہ جج کی کوئی معیاد، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ ہوتی ہے۔ سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے۔ ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جا سکتا ہے مگر وہ محدود ہوتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کیے تو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، وکیل فیصل صدیقی کل دلائل شروع کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp