سویلینز کا ملٹری ٹرائل: راولپنڈی سازش کیس میں ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہوا، وکیل حامد خان کے دلائل جاری

جمعرات 6 مارچ 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے  7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

آج سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں، جس کے مطابق سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے لہذا انہیں غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل کے آغاز پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کا ذکر کیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ بتائیں کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے، مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری

حامد خان نے بتایا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں متعارف کرایا گیا، جس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ العمل تھا، ملک کا پہلا آئین 1956 میں آیا، جس میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے۔

حامد خان کے مطابق آرمی ایکٹ 1952 میں جبکہ پہلی ترمیم 1967 میں ہوئی، تاشقند معاہدے کے بعد لاہور میں ایک سیاسی میٹنگ ہوئی، اگر تلہ سازش کیس میں شیخ مجیب الرحمان سمیت دیگر کو 1967 میں ملزم بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ پہلا مقدمہ 1951 میں راولپنڈی سازش پر بنا، راولپنڈی سازش کا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنا تھا، راولپنڈی سازش کے ملزمان میں جنرل اکبر خان سمیت سویلینز افراد شامل تھے۔

حامد خان کا موقف تھا کہ راولپنڈی سازش کا ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ اسپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا، جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا 1951 میں آرمی ایکٹ موجود تھا، جس پر حامد خان بولے؛ پاکستان میں 1911 کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا اسپیشل ٹریبونل صرف راولپنڈی سازش ٹرائل کے لیے بنایا گیا، جس پر حامد خان بولے؛ نکتہ یہ ہے راولپنڈی سازش کیس میں اعلیٰ سویلین وغیرسویلین افراد شامل تھے، ملزمان کا ٹرائل ملٹری نہیں بلکہ اسپیشل ٹریبونل میں ہوا تھا۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹ پہلی بار 1953 میں تشکیل دی گئی، لاہور میں 1953 میں احمدیہ ہنگامے پھوٹ پڑے تو شہر کی حد تک مارشل لا لگایا گیا، احمدیہ ہنگاموں کے ملزمان کے ٹرائل کے لیے ملٹری کورٹس تشکیل دی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ

حامد خان نے بتایا کہ انہی ہنگاموں سے متعلق مقدمات میں مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی جیسے علما پر مقدمات اور سزائیں بھی ہوئیں، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی بولے؛ بعد میں انھیں معافیاں بھی مل گئی تھیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان ساری باتوں کا ملٹری ٹرائل کیساتھ کیا تعلق ہے، ملک میں کب مارشل لا لگا اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا تعلق ہے، آئین میں مارشل لا کی کوئی اجازت نہیں۔

مزید پڑھیں:سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آرمی ایکٹ میں فراہم پروسیجر پر عمل نہ ہونا الگ بات ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس

حامد خان کا کہنا تھا کہ مارشل لا کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے مارشل لا کا راستہ بند ہوا، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ آئین میں مارشل لا کا کوئی ذکر نہیں، مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 270 اے میں مارشل لا کے اقدام کو تحفظ دیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ مارشل لا کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے، جبکہ وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس کے لیے آئین میں 21ویں ترمیم کی گئی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: مجرم کو سزا ہونی چاہیے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں کیا فرق پڑتا ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل

حامد خان کے مطابق ملٹری کورٹس کو 2 سال کے لیے بنایا گیا، جبکہ لیاقت حسین کیس میں ملٹری کورٹس کا تصور ختم کردیا گیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 21 ویں ترمیم میں ملٹری کورٹس فیصلوں پر اعلی عدالتی نظر ثانی کا اختیار دیا گیا، جس پر حامد خان بولے؛ 21 ترمیم میں دو سال کی شرط نہ ہوتی تو ترمیم کالعدم قرار پاتی، 21ویں ترمیم میں عبوری ملٹری کورٹس بنائی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی یا پرائیویٹ بل لایا؟ جسٹس امین الدین خان

حامد خان کے مطابق 21ویں آئینی ترمیم میں جنگی حالات کے الفاظ کا استعمال ہوا، سپریم کورٹ کے 2009 فیصلہ نے مارشل لاء کا راستہ بند کردیا، سپریم کورٹ کے 2015  فیصلہ میں ملٹری کورٹس کا راستہ ختم کردیا، میں ان دونوں کیسز میں مرکزی وکیل تھا۔

حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ڈسپلن کے لیے کورٹ مارشل کارروائی کے لیے ملٹری کورٹس موجود ہیں، اگر ملٹری کورٹس کے لیے آئینی ترمیم آجائے تو آپ کا موقف کیا ہوگا، جس پر حامد خان بولے؛ ہمیں تو 2 سال کے لیے عبوری ملٹری کورٹس تسلیم نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی یا پرائیویٹ بل لایا؟ جسٹس امین الدین خان

حامد خان نے مزید کہا کہ ملٹری کورٹس جوڈیشل باڈی نہیں ہے، ملٹری ٹرائل میں دستیاب بنیادی حقوق واپس لے لیے جاتے ہیں، جمہوریت میں ملٹری کورٹس کا کوئی تصور نہیں، جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس کی سزائیں کالعدم قرار دیں، وہ عظیم جج تھے۔

اس موقع پر آئینی بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ حامد خان آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ ہم خود پڑھ لیں گے، حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم 1967 میں آئی، اس وقت غیر معمولی حالات تھے، مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی تھی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جرم کی نوعیت سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے، عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کا موقف

حامد خان کے مطابق 1967 کے بعد 1973 میں پاکستان میں متفقہ آئین آگیا، 1973 کا آئین آجانے کے بعد ماضی کی باتیں غیر متعلقہ ہوگئیں، جس پر جسٹس امین الدین خان بولے؛ 1973کے آئین میں ماضی کے قوانین کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے، آپ کی باتیں ایک تاریخی حوالے کی حد تک درست ہیں۔

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے مزید کہا کہ یہاں ہم ایک اپیل سن رہے ہیں جس میں دو شقیں کالعدم کی گئیں، بینچ نے وہ شقیں آرٹیکل 8 پانچ کی بنیاد پر کالعدم قرار دی ہیں، اپنے دلائل کو اسی حد تک محدود رکھیں ورنہ ہم کہیں اور نکل جائیں گے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیس: سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

وکیل حامد خان کا موقف تھا کہ جو کیس بنے ہیں اس میں کہیں بھی ممنوع جگہوں کا ذکر نہیں ہے، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوا کوئی نوٹیفکیشن نہیں کہ کور کمانڈر ہاؤس ممنوع جگہ ہے، اس سے پہلے کہیں کوئی تصویر موجود نہیں تھی کہ وہی جناح ہاؤس ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل  بولے؛ آپ کہنا چاہ رہے کہ آئین کے تحت ممنوع جگہ قرار دیے جانا ضروری ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ صرف آرمی کے لیے نہیں ہے یہ پاکستان کے لیے ہے، حامد خان کا کہنا تھا کہ صرف اس کیس کی وجہ سے سب سے زیادہ ظلم کا شکار پنجاب والے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس نعیم اختر افغان کا پی ٹی آئی سے وابستگی پر سلمان اکرم راجہ سے کیا مکالمہ ہوا؟

حامد خان نے کہا کہ اب انہیں یاد آ گیا کہ جناح ہاؤس ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ آپ کور کمانڈر ہاؤس کا ذکر کر رہے ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے 18 سے 20 لوگوں کی لسٹ دی جنہیں لاہور سے گرفتار کیا گیا، جس پر حامد خان کا موقف تھا کہ ملٹری کورٹ کے دائرہ اختیار میں سویلینز کا ٹرائل ہے ہی نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل  کا کہنا تھا کہ جو جرائم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہوں اس میں اپیل ہو سکتی ہے، اس میں اپیل ڈیپارٹمنٹ کے سامنے ہی ہوتی ہے عام عدالتوں کے سامنے اپیل نہیں ہو سکتی۔

مزید پڑھیں: سویلینز کے خلاف ملٹری ٹرائل کی سماعت میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا تذکرہ کیوں ہوا؟

اس موقع پر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے کہا کہ وہ بات مکمل کرنے میں مزید آدھا گھنٹہ لیں گے، جس پر جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ کل آئینی بینچ دستیاب نہیں لہذا آپ کو پیر کے روز ساڑھے 11 بجے سنیں گے، اس ریمارکس کے ساتھ کیس کی سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری، 27ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری ایجنڈے میں شامل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے 2 میچز کا شیڈول تبدیل

خواجہ آصف، عطا تارڑ اور محسن نقوی کا دورہ پاکستان جاری رکھنے کے فیصلے پر سری لنکن ٹیم سے اظہار تشکر

افغانستان کی جانب سے تجارتی بندش کی بات کسی نعمت سے کم نہیں، خواجہ آصف

افغانستان خود کش حملہ آوروں کے ذریعے ہی لانگ رینج حملے کرسکتا ہے، طلال چوہدری

ویڈیو

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ