منگل کی دوپہر بلوچستان کے علاقے مشکاف کے قریب عسکریت پسندوں کی جانب سے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنایا گیا جسے چھڑوانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آپریشن کے دوران 16 حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 104 مسافروں کو رہا کروایا گیا ہے۔
جعفر ایکسپریس حملے کا نشانہ بنانے والے مسافر وین کے ذریعے کوئٹہ پہنچ گئے۔ مچھ سے 5 مسافر بسوں کے ذریعے 54 مسافروں کو ریلوے اسٹیشن کوئٹہ پہنچایا گیا جہاں مسافروں کے اہل خانہ ریلوے اسٹیشن کوئٹہ پر موجود تھے۔ اس موقع پر مسافروں کے اہل خانہ کی جانب سے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ لوگوں نے حملے میں بچ جانے والے اپنے پیاروں کو گلے سے لگا کر بوسے دیے۔
یہ بھی پڑھیے: جعفر ایکسپریس پر حملہ دہشتگردی، ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نیست و نابود کردیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
اس موقع پر ریلوے اسٹیشن کوئٹہ پر سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی جبکہ صوبائی وزراء اور کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے متاثرہ افراد سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے کہا کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں تمام خاندانوں کے ساتھ ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔
دوسری طرف علاقے میں سیکیورٹی فورسز کا سرچ آپریشن جا ری ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی ادارے مسافروں کو باحفاظت بازیاب کرانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس واقعے کی اطلاع ملتے ہی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جعفر ایکسپریس پر حملہ دہشتگردی، ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نیست و نابود کردیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر جعفر ایکسپریس واقعہ کی متاثرہ خاتون اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔ ضلعی انتظامیہ کے سامنے خاتون نے کہا، ’صوبائی حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے۔ ہم سب پنجابی ایک جگہ اکھٹے ہو جاتے ہیں ہم پر بم چلا دو بات ختم۔ اپنے بچوں کو کہاں لے کر جائیں۔ محسن نقوی کہاں ہیں جو کہا کرتا تھا کہ یہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ کہاں ہے وہ ایس ایچ او۔‘
متاثرہ خاتون نے مزید کہا، ’ہم 60 گھنٹے پیدل چلے ہیں۔ مجھے سرفراز بگٹی کے پاس لے کر جاؤ، کس بات کا وزیر اعلیٰ ہے وہ؟ ہم پہلے بھارت سے ہجرت کرکے یہاں آئے اب یہاں سے کہاں جائیں؟ ہمارا بچہ ابھی بھی ان کے پاس ہے ہماری حفاظت نہیں کرسکتے تو سب بند کردو۔‘