پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم زمینی گزرگاہ طورخم بارڈر کی 3 ہفتے سے جاری بندش کے معاملے پر افغان عمائدین سے مذاکرات کے لیے جرگہ طورخم بارڈر پہنچ گیا۔
پاکستانی حکام نے بتایا کہ تاجر رہنماؤں، علما اور قبائلی عمائدین پر مشتمل 25 رکنی جرگہ طور خم کے مقام پر افغان جرگے سے ملاقات میں دونوں جانب تحفظات کو دور کرکے بارڈر کو کھولنے پر زور دے گا۔
حکام کے مطابق کہ پاکستانی جرگہ دوسری بار اپنے افغان ہم منصب سے مذاکرات کر رہا ہے اس سے قبل جرگہ پاکستانی سرزمین پر منعقد ہوا تھا، جس میں دونوں جانب سے فائربندی پر اتفاق کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: طورخم بارڈر بندش کا افغانستان میں ڈالر کے ریٹ سے کیا تعلق ہے؟
ذرائع نے بتایا کہ آج کا جرگہ افغان سرزمین پر ہو رہا ہے، جس میں پاکستانی جرگے کے اراکین افغان جرگے سے مذاکرات کریں گے جبکہ سرکاری سطح پر دونوں جانب سے جرگے کو اختیار دیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاک افغان جرگے میں کشیدگی کے خاتمے اور بارڈر کو کھولنے پر بات چیت ہوگی اور آج ہی مثبت پیش رفت کی امید کی جارہی ہے۔
طور خم بارڈر بندش کا معاملہ کیا ہے؟
پاک افغان بارڈر پاکستان اور افغانستان کے درمیان خراب حالات اور کشیدگی کے بعد 21 فروری سے بند ہے، اس ضمن میں بارڈر کی گزرگاہ کا مین گیٹ کی بندش سے مال بردار گاڑیوں اور مسافروں کو آنے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
حکام کے مطابق طورخم پر حالات اس وقت خراب ہوئے جب افغان طالبان کی جانب سے بارڈر پر چیک پوسٹوں کی تعمیرات پر کام شروع کیا گیا، جس پر پاکستان کو اعتراض ہے، جس کے بعد طالبان نے مقامی آبادی کو بھی نشانہ بنایا۔
طور خم بارڈر پر کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگئے تھے، جس کے بعد اب جرگے کے ذریعے مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
بارڈر بندش سے بڑے پیمانے پر نقصان
طورخم پر پاک افغان بارڈر کی بندش سے دونوں جانب کے تاجر پریشان ہیں اور سینکٹروں مال بردار ٹرک اور کنٹینرز پھنس گئے ہیں، تاجروں کے مطابق بارڈر بندش سے تجارت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق تاجروں کو یومیہ ایک ارب روپے نقصان ہو رہا ہے جبکہ کھانے پینے سمیت دیگر اشیا خراب ہونے کا بھی خدشہ ہے۔