امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے نئے بل کی منظوری دے دی ہے، جس سے کسی بھی امریکی امداد کو طالبان تک پہنچنے سے روکا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا افغان طالبان کے مسئلے سے آگاہ ہے، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس
امریکی کانگریس کے رکن برائن ماسٹ نے افغانستان کے متعلق اہم بل پیش کیا، بل کا مقصد امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے کو افغان طالبان تک پہنچنے سے روکنا ہے۔
اس حوالے سے کانگریس مین برائن ماسٹ کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا ایک بھی ڈالر طالبان کے ہاتھوں میں جائے۔
1) TODAY: Tim Burchett says Democrats are voting AGAINST the 'No Tax Dollars for Terrorists’ bill that would stop the $40 million in American taxpayer money sent to the Taliban EACH WEEK
2) Interview with a CIA Agent explains exactly how the US takes over $40 million in cash… pic.twitter.com/GtzmfXLAAE
— Wall Street Apes (@WallStreetApes) April 9, 2025
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی نے امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالرز کو طالبان تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ایک نئے بل کی منظوری دی ہے۔
کمیٹی کے مطابق نو ٹیکس ڈالرز فار ٹیررسٹ ایکٹ ریپبلکن کانگریس مین ٹم برشیٹ نے متعارف کرایا تھا اور 119 ویں کانگریس کے کمیٹی کے پہلے مکمل مارک اپ اجلاس کے دوران منظور کیا گیا تھا۔
امداد سے طالبان حکومت کو بالواسطہ فائدہ پہنچ رہا ہے
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق یہ قانون سازی امریکی قانون سازوں میں ان رپورٹس پر بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان سامنے آئی ہے کہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لیے بھیجی جانے والی لاکھوں ڈالر کی بین الاقوامی امداد سے طالبان حکومت کو بالواسطہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے، تقریباً 5 بلین ڈالر کی امریکی امداد ملک میں پہنچ چکی ہے، جس میں مبینہ طور پر کم از کم 10 ملین ڈالر ٹیکس اور فیس کی صورت میں طالبان کے ہاتھوں میں جا چکے ہیں۔
40 ملین ڈالر کی ہفتہ وار ترسیلات بھیجی گئیں
اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (SIGAR) نے مئی 2024 میں کہا تھا کہ طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان کے مرکزی بینک کو تقریباً 40 ملین ڈالر کی ہفتہ وار ترسیلات بھیجی گئی ہیں، جس سے کانگریس میں خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بعد میں تصدیق کی کہ دسمبر میں اپنی گواہی کے دوران طالبان کو تقریباً 10 ملین ڈالر ٹیکس کی مد میں ادا کیے گئے تھے۔
ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین برائن ماسٹ نے کہا کہ امریکا طالبان کو تسلیم نہیں کرتا اور کابل میں سفارتی موجودگی برقرار نہیں رکھتا۔
اس بل کے تحت محکمہ خارجہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دوسرے ممالک اور این جی اوز کو امریکی امداد سے چلنے والے امدادی پروگراموں کا استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مدد فراہم کرنے سے فعال طور پر حوصلہ شکنی کرے۔
نیا اقدام پچھلی کانگریس میں منظور کیے گئے ایک سابقہ بل کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے، جس کا مقصد امداد طالبان تک پہنچنے روکنا تھا۔ جب کہ اس بل کو ایوان میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، تاہمیہ سینیٹ میں رک گیا۔
یہ بھی پڑھیں:کابل فال کے وقت افغان ایئر فورس طالبان کے خلاف امریکی ایئر کرافٹس کیوں استعمال نہیں کرپائی؟
نو ٹیکس ڈالرز فار ٹیررسٹ ایکٹ میں فی الحال 23 شریک اسپانسرز ہیں اور اب مزید بحث اور مکمل ووٹنگ کے لیے ایوان کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔
اس اقدام کو امریکی قانون سازوں خصوصاً ریپبلکنز کی جانب سے طالبان کے لیے تمام مالیاتی راستے بند کرنے کی وسیع تر کوششوں کے حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جنہیں وہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتے رہتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اس طرح کے فنڈز کے استعمال کے بارے میں جاری خدشات کے درمیان یہ قانون سازی افغانستان کو غیر ملکی امداد کے بہاؤ کی جانچ پڑتال میں اضافے کا اشارہ بھی دیتی ہے۔
برائن ماسٹ کی جانب سے پیش کیے گئے بل کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کو خصوصی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔
دیگر ممالک اور غیر سرکاری تنظیموں کو طالبان کو مالی یا مادی امداد فراہم کرنے سے روکا جائے گا۔
یہ بل 23 قانون سازوں کی حمایت سے کانگریس میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد امریکی حکومت کی پالیسی مزید سخت ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی حکومت نے گزشتہ 3 برس میں افغانستان کو 2 ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے