ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کراچی کی جانب سے استعمال شدہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور پرنٹرز سمیت دیگر اشیا پر کسٹم ڈیوٹی کم کردی گئی ہے جس سے توقع ہے کہ مارکیٹ میں ان درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں بڑی کمی واقع ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: کمپیوٹر چپ کی تیاری: چین 2025 میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کے لیے پُرعزم
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کی جانب سے کچھ عرصے کے بعد ویلیوایشن فہرست جاری کی جاتی ہے اور جو ڈالر کی قیمت سمیت عالمی مارکیٹ اور قومی پالیسی کو دیکھ کر مرتب کی جاتی ہے آخری بار ویلیوشن فہرست ایک سال پہلے مرتب کی گئی تھی۔
ایئریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کے مطابق استعمال شدہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور پرنٹرز سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد تک کمی آئے گی۔
لیپ ٹاپس کی بات کی جائے تو ان کی قیمت 10 ہزار روپے سے شروع ہو کر کم و بیش 60 ہزار روپے تک بنے گی جبکہ بات کی جائے ڈیسک ٹاپ کی تو سینٹرل پراسیسنگ یونٹ کی قیمت 4 ہزار روپے سے شروع ہوکر 21 ہزار روپے تک ہو گی۔
مزید پڑھیے: بیرون ملک سے موبائل لانے پر ٹیکس میں کمی، وزیراعظم شہباز شریف نے خوشخبری سنادی
جہاں تک مانیٹرز کا تعلق ہے تو سب سے چھوٹا مانیٹر (14 انچ) ہے جس کی قیمت 1.31 ڈالر فی اینچ رکھی گئی ہے اور اگر اسی حساب سے ہم 14 انچ مانیٹر کی قیمت کا تعین کریں تو یہ پاکستانی کم و بیش 5 ہزار روپے بنتے ہیں اور جیسے جیسے انچ میں اضافہ ہوگا ویسے ہی فی ڈالر قیمت بڑھتی جائے گی۔
کراچی کی مشہور یونی پلازہ میں موجود کمپیوٹرز کے کاروبار سے منسلک تاجر وحید مسیڈیا کے مطابق کمپیوٹرز سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں کا تعلق ان کے نئے ماڈلز آنے سے بھی ہوتا ہے جیسے کہ کوئی نیا ماڈل مارکیٹ میں آرا ہے تو پرانے کی قیمت میں کمی ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موبائل فونز کے معاملے میں بھی ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت نئی ویلیو ایشن کے مطابق 10 سے 20 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: حکومت کا قسطوں پر موبائل فون فراہم کرنے کا منصوبہ تعطل کا شکار
ان کا کہنا تھا کہ نئی اشیا کی قیمتیں ویسے بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ قوت خرید نہ ہونے کے باعث پاکستانی زیادہ تر استعمال شدہ اشیا کو فوقیت دیتے ہیں اور ان کا پاکستان میں آنے کا ذریعہ ہوائی اور بری جہاز ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہوائی جہاز پر آنے سے اس کا ٹیکس زیادہ ہوتا ہے جبکہ سمندر سے آنے والے سامان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر ٹیکس کی ادائیگی کم ہوتی ہے۔