کئی سالوں سے مخمصے کا شکار تھے کہ آخر ایک چٹکی سندور کی قیمت اتنی بھی کیا ہوتی ہوگی کہ دیپکا پڈکون کو طعنہ دینا پڑا کہ ایک چٹکی سندور کی قیمت تم کیا جانو رمیش بابو!
یہ مخمصہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب اس وقت ختم ہوگیا جب پتہ چلا کہ بھارت کو آپریشن سندور کی قیمت 3 رافیل، ایک ایس یو 30، ایک مگ 29 اور ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی تباہی کی صورت چکانی پڑی۔ اب تو کوئی بھی پاکستانی کسی بھی بھارتی سے کہہ سکتا ہے ‘ایک چٹکی سندور کی قیمت تو تم اچھی طرح جان گئے انڈین بابو، اگلی بار منگل سوتر کی قیمت لگوانے آنا’۔
یاد ہے آخری دونوں پاک انڈیا جھڑپوں یعنی کارگل اور بالاکوٹ کے موقع پر انڈین پائلٹس چائے پلانے پنڈی پہنچا دیے گئے تھے؟ اس بار انڈیا نے پوری کوشش کی کہ چائے کی ہیٹرک نہ ہو مگر ہیٹرک سے بچنے کے چکر میں اسے پچھلی 2 بار سے بھی بڑی عالمی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
ذرا سوچیے کہ ان بھارتی شہریوں پر کیا بیتی ہوگی جو رات کو سکون سے سوئے اور صبح جاگے تو پتہ چلا انڈیا کی مانگ کا سندور رات کے ایک ہی پہر خاک سے بدل چکا۔ اور خطے کی سپر پاور ہونے کے دعویدار کو ایل او سی پر سرنڈر کا سفید جھنڈا لہرانا پڑگیا ہے۔ پتہ نہیں انہیں مولانا آزاد یاد آئے کہ نہیں، جنہوں نے 27 اکتوبر 1914 کو کلکتہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ‘پس حضرات! وہ ہاتھ نہایت مقدس ہے جس میں صلح کا سفید جھنڈا لہرا رہا ہو۔ مگر زندہ وہی ہاتھ رہ سکتا ہے جس میں خونچکاں تلوار کا قبضہ ہو’۔
ایک وقت تھا جب پاکستان میں واقعی مسئلہ کشمیر کی نسبت سے عسکری تنظیمیں ہوا کرتی تھیں اور وہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ بھی نہ تھا۔ پاکستان کے شہروں اور قصبوں میں ان تنظیموں کے دفاتر ہوا کرتے، وہ شہر شہر کھلے جلسے کرتے اور ان کی مطبوعات شائع ہوتیں۔ سیاسی رہنماؤں کی طرح ہی روز ان کے بیانات اخبارات کی زینت بنا کرتے۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو سے ان کے انٹرویوز نشر ہوتے۔ مگر اس دور کو گزرے اتنا عرصہ بیت گیا کہ اب تو ہمیں بھی یاد نہیں کہ آخری بار ان میں سے کسی کو کب اخبار میں دیکھا تھا؟ نہ کوئی دفتر اور نہ ہی ورکر، نہ کوئی کمانڈر اور نہ ہی ہٹو بچو کا شور۔ لے دے کر بس وہ مساجد ہی بچی ہیں جن سے متصل کبھی ان کے دفاتر ہوا کرتے۔
اگر غور کیجیے تو مسجد ایسی جگہ ہے جہاں داخل ہونے سے خاص کو روکا جاسکتا ہے نہ ہی عام کو۔ دن 5 بار اس کے گیٹ سب کے لیے کھلے۔ گویا مسلم معاشروں کا وہ مقام جس میں چاہ کر بھی کوئی سیکریسی نہیں رکھی جاسکتی۔ بڑے اس کی صفوں تک رہتے ہیں مگر بچے تو ہر کونے کھدرے تک دوڑے پھریں۔ جس کی صفوں پر خاص و عام کی تفریق اس حد تک مٹ جاتی ہو کہ محمود و ایاز ہم صف، وہاں کوئی رازداری ممکن ہے؟ ایک عدد موبائل کیمرہ مناظر محفوظ کرکے ساری دنیا کو دکھا سکتا ہے کہ وہاں عبادت ہورہی ہے یا عسکریت ۔
مگر موذی جی نے شاید مساجد کو بھی ان مندروں پر قیاس کر رکھا ہے جس کے پیچدار تہہ خانے ٹنوں کے حساب سے سونا ہی سنبھالے ہوتے ہیں اور جن تہہ خانوں تک کسی کو بھی رسائی نہیں۔ کسی نے آج تک کسی مسجد کا بھی ایسا کوئی تہہ خانہ دیکھا جس کے آہنی گیٹ کو چھونا بھی ممنوع ہو؟ اگر بالفرض پاکستان عسکریت کا کوئی خفیہ نیٹ ورک بھی چلانا چاہے تو اس کے لیے سب سے غیر موزوں مقام مسجد ہی ہوسکتا ہے۔ جہاں ہر خاص و عام کی رسائی ہو وہاں کچھ خفیہ کیسے رکھا جاسکتا ہے؟
مگر اس کے باوجود انڈیا کی جانب سے چن چن کر مساجد کو میزائل حملوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ بھی ایسی مساجد جو پر ہجوم آبادی میں تھیں۔ علاقے کا ہر فرد گواہی کو دستیاب ہے کہ وہ محض مسجد تھی، کوئی عسکریت نہیں۔
اندازہ لگائیے، 24 میزائل داغے گئے اور جان سے کتنے گئے؟ 26 افراد، وہ بھی 6 مختلف مقامات پر اور ان میں بھی 3 سال کی بچی تک شامل۔ نشانہ بننے والے مقامات عسکری ٹھکانے ہوتے تو ہر مقام پر درجنوں افراد نشانہ بنتے۔ بالخصوص لاہور والی مسجد سے جب جاں بحق اور زخمی عسکریت پسند نکالے جاتے تو چھپانے ممکن ہوتے؟ لاہور کے ہی اسپتالوں میں لے جانا پڑتا کہ نہیں؟ سب کی رسائی میں ہوتے کہ نہیں؟ وضع قطع بتا نہ دیتی کہ عسکریت سے وابستہ لوگ ہیں؟ بالخصوص حکومت یہ رسک لیتی کہ نشانہ بننے والے مقامات تک عالمی میڈیا کو فوری رسائی دے؟ شہدا اور زخمیوں کی نہ صرف شناخت موجود ہے بلکہ ان تصاویر تک دستیاب ہیں۔ یہ کسی بھی اینگل سے عسکریت پسند لگتے ہیں؟
مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا کی آر ایس ایس مافیا مسلم دشمنی کا ایک طویل مدتی ایجنڈا رکھتی ہے، سو اس کے لیے کبھی یہ اپنے ہی گھر میں مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے تو کبھی پاکستان کا ہوا کھڑا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ مافیا اپنے ہی مسلمان شہریوں پر جو قہر ڈھاتی ہے وہ عالمی مسئلہ نہیں بن پاتا، اسے یہ مینج کرلیتے ہیں مگر پاکستان تو ایٹمی ظاقت ہے۔ اس سے الجھتے ہی یہ مافیا پوری دنیا کی توجہ کھینچ لیتی ہے۔ نتیجہ؟ نتیجہ بالاکوٹ کے 2 کوے یا پھر گزشتہ سے پیوستہ شب کا وہ سندور جسے خاک بننے میں صرف 4 گھنٹے لگے۔ اور تو اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہ کہے بغیر نہ رکھ سکے ‘یہ شرمناک حرکت ہے’ مگر نریندر موذی کا شرم سے کیا لینا دینا؟ جو اپنے گھر گجرات میں ہی مسلمانوں کا قتل عام کرچکا اور گجرات کا قصائی کہلا چکا اسے کیا شرم؟ کیا گجرات کے وہ مظلوم مرد و زن بھی لشکر طیبہ کے ‘آتنک وادی’ تھے؟ کیا گجرات حافظ سعید کا مسکن تھا؟ ان کو بھی چھوڑیے، اڑیسہ میں تو انہوں نے کرسچینز کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ کیا وہ بھی ‘مجاہدین’ تھے؟ پاکستان کے ایجنٹ تھے؟ دہلی کے لال قلعے پر اسلام کا پرچم لہرانا چاہتے تھے؟
اگر آپ غور کیجیے تو دہشتگردی اس ہندوانتہا پسند جماعت کا مستقل ہتھیار ہے۔ کینیڈا کے سکھ شہری کا قتل کرکے یہی بھارتی حکومت اس ملک سے اپنے تعلقات نہیں بگاڑ چکی؟ سو مسئلہ پاکستان کے جغرافیے میں ہونے والی کسی ایسی سرگرمی کا نہیں جس سے انڈیا کو نقصان پہنچ رہا ہو بلکہ موذی سرکار کا فتنہ گجرات سے لے کر ٹورنٹو تک پھیلا ہوا ہے۔ مگر یہ غنڈہ گردی اب زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ اب پاکستان چائے انڈیا کی حدود تک پہنچانے کی صلاحیت حاصل کرچکا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔