کوئٹہ کے ایک امتحانی مرکز میں جب سب طلبا و طالبات اپنے ہاتھوں میں پکڑے قلموں سے خوابوں کو کاغذ پر اتار رہے تھے، وہیں ایک ایسا نوجوان بھی موجود تھا جس کا قلم اس کے پیروں کی انگلیوں میں تھا۔ یہ صرف امتحانی پرچہ حل کرنے کا منظر نہیں تھا، بلکہ حوصلے، عزم اور خودداری کی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔
خصوصی صلاحیتوں کے حامل رفیع اللہ نے اپنی ہمت سے ثابت کر دیا کہ اگر ارادے سچے ہوں تو جسمانی کمزوریاں کبھی منزل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔
رفیع اللہ کے قلم سے نکلنے والے الفاظ گویا حوصلے کی روشنائی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہر سطر، ہر لفظ اس کی جدوجہد اور حوصلے کی گواہی دے رہا تھا۔ اس کے پاؤں کی انگلیاں صرف کاغذ پر نہیں چل رہی تھیں، بلکہ دنیا کو یہ پیغام دے رہی تھیں کہ معذوری جسم میں نہیں ہوتی بلکہ سوچ اور جذبے میں ہوتی ہے۔
زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے رفیع اللہ نے کبھی ہار نہیں مانی۔ اس کی آنکھوں میں خوابوں کی چمک آج بھی ویسی ہی روشن ہے۔ رفیع اللہ نے بتایا کہ جو لوگ ہار مان لیتے ہیں، وقت ان کے وجود کو مٹا دیتا ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ گر کر اٹھنا ہی اصل کامیابی ہے۔
رفیع اللہ کا خواب ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بنے اور انسانیت کی خدمت کرے۔ اپنی زندگی کی مشکلات کو ہمت کا ہتھیار بنا کر وہ نہ صرف اپنے لیے، بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے امید کی کرن بن چکا ہے جو کسی نہ کسی محرومی کا شکار ہیں۔
یہ کہانی محض ایک طالب علم کی نہیں، بلکہ عزم و ہمت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ رفیع اللہ کے پیروں کی انگلیوں میں تھاما ہوا قلم ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جو لوگ خود پر یقین رکھیں، ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ پہاڑ بن کر نہیں آسکتی۔