ثاقب نثار صدر پاکستان بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں، سابق جسٹس شوکت صدیقی

ہفتہ 6 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت صدیقی کے مطابق موجودہ آئینی و قانونی بحران کا حل فل کورٹ ہے لیکن میں اس حق میں نہیں کہ سپریم کورٹ کے کسی حکم کو آپ پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے مسترد کریں۔

وی نیوز کے پروگرام ’قانون کیا کہتا ہے‘ میں بات چیت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالتیں، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ خصوصی سلوک کر رہی ہیں جس سے عدالتوں کے بارے میں تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ کمپرومائزڈ ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کے مقدمات میں اگر ملزم عدالت کی پہلی کال پر حاضر نہیں ہوتا تو اس کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جاتی ہے۔ جب کہ عمران خان کے معاملے میں عدالتیں صبح سے شام گئے تک انتظار کرتی ہیں جس سے عدالتوں کے کمپرومائزڈ ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوتا ہے۔

عمران خان کے کیس میں عدالتوں کا رویہ کچھ اور ہے

ایک سوال کے جواب میں شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے 23 سال بطور وکیل کریمنل لا اور پھر 7 سال بطور جج پریکٹس کیا ہے۔ ایک شخص کے خلاف تین سےچار ایف آئی آرز ہوں تو عدالتیں اس کی ضمانت منظور نہیں کرتیں لیکن عمران خان کے کیس میں عدالتوں کا رویہ کچھ اور ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو لیک کی تحقیقات ہوں گی، 10 رکنی خصوصی کمیٹی قائم

یہ بھی پڑھیں:سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کی مریم نواز سے متعلق گفتگو لیک

عدالتیں پرائیویٹ ہسپتالوں کے سرٹیفکیٹس قبول ہی نہیں کرتیں

انہوں نے کہا کہ عدالتیں عمران خان کے ساتھ ایک عام درخواست گزار کی بجائے ایک خصوصی درخواست گزار کے طورسلوک کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل عمران خان نے کہا کہ ان کی ٹانگ میں سوجن ہو گئی ہے اور شوکت خانم ہسپتال کی رپورٹ بھیج دی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں پرائیویٹ ہسپتالوں کے سرٹیفکیٹس تو قبول ہی نہیں کرتیں۔ اگر کوئی اور عام ملزم ہوتا تو اس کو پولیس کی حراست میں سرکاری ہسپتال کے میڈیکل بورڈ کے پاس معائنے کے لئے جانا پڑتا۔

روٹین سے ہٹ کر ریلیف دیا جا رہا ہے

شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ جس طرح سے عمران خان کو روٹین سے ہٹ کر ریلیف دیا جا رہا ہے، اس سے اس بات کی نفی ہوتی کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔

ثاقب نثار کی تگ و دو

سابق جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی صدر پاکستان بننے کے لیے تگ و دو کے بارے میں ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں۔

شوکت صدیقی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ان سے کہا کہ اگر ہم انتخابات میں منتخب ہو کر حکومت بناتے ہیں تو صدر پاکستان کے عہدے کے لئے ہمارے امیدوار آپ ہوں گے۔

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں کہ ثاقب نثار کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ بغیر مفاد کسی بھی قسم کی عمل میں شریک نہیں ہوتے اور ان کا سارا عدالتی کیریئر  ایسا ہی ہے۔ اس وقت جو آئینی غیر آئینی، قانونی یا غیر قانونی جو سرگرمیاں جاری ہیں ان سب کا مقصد وہی وعدہ ہے جو اُن سے کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف نے مجھے سیکرٹری بنایا نہ ہی جج: خواجہ آصف جھوٹ بول رہے ہیں، ثاقب نثار

یہ بھی پڑھیں:جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، مریم نواز

اداروں کے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے

شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ملک میں آئینی اور قانونی بحران کی وجہ سے ایک ہیجانی کیفیت ہے اور اس معاملے کا حل صرف یہ ہے کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس حق میں نہیں کہ سپریم کورٹ کے کسی حکم نامے کو پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے مسترد کر دیا جائے۔

شوکت صدیقی کے مطابق پارلیمنٹ کی سپریمیسی قائم کرتے کرتے ہمیں باقی اداروں کے اختیارات اور آزادیوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

جج صاحبان مل کر کوئی حل نکالیں

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے 15 جج صاحبان مل بیٹھ کر کوئی حل نکالیں۔ اگر تناؤ برقرار رہتا ہے تو اللہ نہ کرے ہم کسی غیر آئینی اقدام کی طرف نہ چلے جائیں۔ چیف جسٹس صاحب کو دل بڑا کر کے فل بینچ بنانا چاہیے کیونکہ یہ پورے ملک کا معاملہ ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل نہیں کرنا چاہیے تھا

شوکت صدیقی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو اسے معطل نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن اس پر سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور میری رائے میں یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا۔ اور اس پر بھی فل کورٹ کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مذاکرات کے لیے جماعتوں کو کوئی ہدایت نہیں کی، 14 مئی کو انتخابات کا حکم برقرار ہے، سپریم کورٹ

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ عدالتی اصلاحات سے متعلق بل پر حکم امتناعی برقرار، تحریری حکم نامہ جاری

چیف جسٹس کی آبزرویشن سے اتفاق نہیں

انہوں نے کہا کہ وہ چیف جسٹس کی اس آبزرویشن سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس بل سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہو گی بلکہ اس سے عدلیہ اور مضبوط ہوگی۔

سابق جسٹس شوکت صدیقی کے مطابق اگر آرٹیکل 191 کے ذریعے سپریم کورٹ اپنے اجلاس میں یہ ترامیم کر لیتی تو کوئی ہرج نہیں تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات پر قدغن بہت پرانا مطالبہ تھا۔

واضح ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے

14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ایک سوال پر جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ زمینی حقائق کی روشنی میں یہ بڑا واضح ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کروانا آئینی ذمے داری یا ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ انتخابات کروانے ہیں اور صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا بھی آئینی ذمے داری ہے۔

90 روز کی بے معنی قد غن

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ وہ صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد نہیں کروا سکتا تو پھر یہ 90 روز کی قدغن بے معنی ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں جو نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے اس نے اس میں یہی موقف اپنایا ہے بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے اختیارات میں مداخلت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وی نیوز ایکسکلیوسیو: سپریم کورٹ کے پاس ایسے اختیارات نہیں کہ وہ جو چاہے کر گزرے، خرم دستگیر

یہ بھی پڑھیں:مجھے پتا ہے آڈیو کس نے لیک کروائی انہیں شرم آنی چاہیے: سابق چیف جسٹس ثاقب نثار

فیصلے پر نظر ثانی

شوکت صدیقی کے مطابق جسٹس صاحب نے اشارہ دیا تھا کہ 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وفاقی حکومت نے نظر ثانی اپیل دائر نہیں کی۔ اب چونکہ ایک نظرثانی درخواست دائر ہو گئی ہے تو امید ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی ہو جائے گی کیونکہ اس سے پہلے کسی درخواست کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کے لیے بھی اس فیصلے پر نظرثانی کرنا مشکل تھا۔

ہندوستان اور بنگلہ دیش کا الیکشن کمیشن

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کے پاس بڑے اختیارات ہیں اور انتخابات کے انعقاد کے عبوری عرصے میں اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس منتقل ہو جاتے ہیں۔ اگر پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد ہم قومی اسمبلی کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں کروا سکیں گے۔

شوکت صدیقی نے بتایا کہ 1977 میں قومی اسمبلی کے دو دن بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات تھے۔ جب قومی اسمبلی کے انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگا تو پھر بڑے پیمانے پر ایک تحریک چلی جس کا ضیا الحق نے فائدہ اٹھایا۔

سپریم کورٹ الیکشن کو ملتوی کر سکتی ہے

انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 254 ہے جس کے ذریعے سپریم کورٹ 90 دن سے زیادہ الیکشن کو ملتوی کر سکتی ہے۔

عدلیہ میں تقسیم کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ بہت متحد تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp