ماہرین صحت نے سن اسکرین سے متعلق عام غلط فہمی دور کردی

پیر 21 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کہ سورج کی شعاعوں (یو وی شعاعوں) سے بچنے کے لیے استعمال کی جانے والی سن اسکرینز، چاہے وہ ’کیمیائی‘ ہوں یا ’منرل‘، دونوں تقریباً ایک ہی طریقے سے کام کرتی ہیں، یہ جلد پر لگ کر زیادہ تر شعاعیں جذب کر لیتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ غلط فہمی عام ہے کہ منرل سن اسکرین شعاعوں کو واپس موڑ دیتی ہے۔ درحقیقت وہ بھی 95 فیصد شعاعیں جذب کرتی ہیں اور صرف تھوڑی سی روشنی بکھیرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: زمین کو سورج کی تپش سے بچانے کے لیے دیو ہیکل چھتری خلا میں بھیجنے کی تیاریاں

ماہرین نے بتایا کہ کیمیائی اجزا جیسے اوکسی بینزون اور ایوو بینزون جسم میں تھوڑی مقدار میں جذب ہو سکتے ہیں، لیکن اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ جانوروں پر کی جانے والی پرانی تحقیق کی بنیاد پر یہ خدشات پیدا ہوئے تھے، مگر انسانوں میں ان اجزا کا اثر نہایت معمولی ہوتا ہے۔

اسی طرح، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اجزا سمندری زندگی، خاص طور پر مرجان کی چٹانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، لیکن اب تک کی زیادہ تر تحقیق تجربہ گاہ میں کی گئی ہے، اور سمندر میں ان کی مقدار بہت کم پائی گئی ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’سب سے بہتر سن اسکرین وہی ہے جو آپ باقاعدگی سے استعمال کریں۔‘ کیونکہ سورج کی شعاعوں سے جلد جل سکتی ہے، جھریاں پڑ سکتی ہیں اور یہاں تک کہ جلد کا کینسر بھی ہو سکتا ہے۔

سورج کی شعاعیں اور انسانی جلد

سورج سے نکلنے والی روشنی میں کچھ ایسی شعاعیں بھی شامل ہوتی ہیں جنہیں انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ان شعاعوں کو سائنسی زبان میں بالائے بنفشی شعاعیں کہا جاتا ہے۔ یہ شعاعیں انسانی جلد کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی دو اقسام ہوتی ہیں: ایک جلد کو جلاتی ہے اور دوسری جلد کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہے۔

تحقیق کے مطابق، جو لوگ بغیر کسی حفاظتی تدبیر کے سورج کے نیچے زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان میں جلد کی سوزش، دھوپ سے جلن، داغ دھبے اور جلد کے کینسر جیسے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

سن اسکرین کی ابتدا اور ترقی

سن اسکرین کوئی نئی ایجاد نہیں۔ قدیم دور میں بھی لوگ سورج سے بچنے کے لیے ٹوپیاں، مٹی، تیل یا چادریں استعمال کرتے تھے، مگر سائنسی بنیادوں پر سورج سے بچاؤ کی تحقیق انیسویں صدی میں شروع ہوئی، جب سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ کچھ قدرتی مادے سورج کی نقصان دہ شعاعوں کو روک سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین سخت گرمی میں چہرے کی جلد کو صحت مند کیسے رکھ سکتی ہیں؟

انیسویں صدی کے آخر میں درختوں کی چھال سے حاصل ہونے والا ایک مادہ جسے کونین کہا جاتا ہے، سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے میں مفید پایا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سائنسدانوں نے ایسے کئی اور مادے دریافت کیے جو جلد پر لگانے سے سورج کی شعاعوں کو روکتے ہیں

سن اسکرین کیسے کام کرتی ہے؟

عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ منرل یعنی معدنی اجزا پر مبنی سن اسکرین شعاعوں کو جسم سے باہر پھینک دیتی ہے اور کیمیائی اجزا والی سن اسکرین شعاعوں کو جذب کرتی ہے۔ مگر 2015 میں کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی کہ معدنی سن اسکرین بھی زیادہ تر شعاعوں کو جذب ہی کرتی ہے۔

اس تحقیق میں خاص طور پر ٹائٹینیم اور زنک پر تجربہ کیا گیا، اور یہ نتیجہ نکالا گیا کہ یہ اجزا صرف 5 فیصد شعاعوں کو بکھیرتے ہیں جبکہ باقی سب کو جذب کرلیتے ہیں۔

انسانی جسم میں جذب ہونے کے خدشات

کچھ لوگوں کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ کیمیائی اجزاء والی سن اسکرین جلد کے ذریعے جسم کے اندر جا سکتی ہے۔ اس پر سائنسی تحقیق کی گئی ہے۔ سن 2001 میں چوہوں پر تجربہ کیا گیا جنہیں بہت زیادہ مقدار میں کیمیائی اجزا کھلائے گئے۔ اس تجربے میں چوہیوں کے جسم میں کچھ ہارمونی تبدیلیاں دیکھی گئیں، جس کی وجہ سے لوگوں میں خدشہ پیدا ہوا کہ شاید یہ انسانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا واقعی کالا چشمہ آنکھوں کو دھوپ سے بچاتا ہے؟

لیکن بعد میں ماہرین نے تحقیق کے بعد بتایا کہ اگر کسی انسان کو ایسی ہی حالت تک پہنچنا ہو تو اسے روزانہ اتنی سن اسکرین لگانی ہوگی کہ وہ 277 سال تک مسلسل جاری رہے، جو کہ ممکن نہیں۔

اسی طرح، سن 2004 میں انسانی رضاکاروں پر بھی تجربہ کیا گیا۔ 32 افراد نے ایک ہفتہ تک دن میں ایک بار خاص سن اسکرین لگائی۔ پہلے دنوں میں ان کے جسم میں تھوڑے بہت ہارمون کی سطح میں فرق دیکھا گیا، مگر چند دن بعد وہ فرق بھی ختم ہو گیا۔ اس سے نتیجہ نکالا گیا کہ یہ فرق عارضی تھا اور نقصان دہ نہیں تھا۔

ماحول پر اثرات کی تحقیق

کچھ ماہرین ماحول کے تحفظ کے حوالے سے فکرمند ہیں، خاص طور پر سمندر میں رہنے والی مرجان کی چٹانوں کے حوالے سے۔ کچھ تجربہ گاہوں میں کیے گئے تجربات میں یہ دیکھا گیا کہ کیمیائی اجزا مرجان کی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مگر یہ تجربات غیر فطری حالات میں کیے گئے تھے، اور سمندر میں ان اجزا کی مقدار بہت کم پائی گئی ہے۔

مثلاً ہوائی میں کیے گئے ایک مطالعے میں سیاحتی مقامات کے پانی سے نمونے لے کر دیکھے گئے، جن میں کیمیائی اجزا کی مقدار ایک بڑے فٹبال اسٹیڈیم میں چند قطروں جتنی نکلی، جو کسی نقصان کے لیے بہت کم ہے۔ پھر بھی احتیاط کے طور پر ہوائی حکومت نے ان اجزا والی سن اسکرین کی فروخت پر پابندی لگا دی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مرجان کے لیے اصل خطرہ درجہ حرارت میں اضافہ، آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی ہے، نہ کہ صرف سن اسکرین۔

محققین کی سفارشات

تحقیق کے مطابق اب تک کوئی مضبوط ثبوت نہیں ملا کہ سن اسکرین انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے، چاہے وہ کیمیائی ہو یا معدنی۔ ہاں، کچھ لوگوں کو کبھی کبھار الرجی یا سوزش ہوسکتی ہے، جو کہ ہر چیز سے ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سورج سے انتہائی طاقتور شعائیں پھوٹ پڑیں، سیٹلائٹ سسٹم کو خطرہ

ماہرین کہتے ہیں کہ بہترین سن اسکرین وہی ہے جو آپ خوشی سے روزانہ استعمال کریں۔ کیونکہ اصل خطرہ سورج کی شعاعوں سے ہے، نہ کہ سن اسکرین سے۔ جلد کے کینسر جیسے خطرناک امراض سے بچنے کے لیے سورج سے بچاؤ ضروری ہے، اور اس کے لیے سن اسکرین ایک مؤثر، آزمودہ اور محفوظ طریقہ ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ غلط فہمی عام ہے کہ منرل سن اسکرین شعاعوں کو واپس موڑ دیتی ہے۔ درحقیقت وہ بھی 95 فیصد شعاعیں جذب کرتی ہیں اور صرف تھوڑی سی روشنی بکھیرتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp