محمد احمد تقسیم کے وقت تو ممبئی نہ چھوڑ سکے لیکن جب پاکستان جا بسنے والی خالہ کے گھر پہلی بار گھومنے پھرنے کی غرض سے آئے تو اسی سفر میں خالہ کی بڑی بیٹی حمیدہ بیگم کو اپنا جیون ساتھی چُن لیا۔
اس کے بعد ممبئی میں ان کا دل نہ لگا اور 1954ء میں سب چھوڑ چھاڑ ٹکٹ کٹا کے سیدھے کراچی خالہ کے گھر آن دھمکے۔ دور چار دن تو چپ سادھے رکھی، آخر کار مدعا بیان کر ڈالا۔ خالہ ذرا تنک مزاج تھیں جو کافی حیل و حجت کے بعد راضی ہوئیں۔ خالو صدا کے شریف آدمی ٹھہرے سو جو بیگم کی خواہش سو ان کی بھی ہو رہی۔
احمد میاں ممبئی سے شیشے کی قلعی اور پھول پتی بنانے کی تربیت لے کر آئے تھے۔ کراچی کے ایک بوہری بیوپاری کے کارخانے میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ چار پیسے کمانے لگے تو مشترکہ خاندانی نظام سے تنگ آکر لاہور کوچ کرنے کا تہیہ کیا۔
کچھ رقم پس انداز کرکے ایک دن پانچ ماہ کی حاملہ حمیدہ بیگم کو سامان باندھ کر لاہور جانے کا فیصلہ سنایا۔
حمیدہ بیگم اپنے والدین سے اس حالت میں دوری کا سوچ کر شدید الجھن کا شکار تھیں ۔ جب کہ ان کے شوہر نے لاہور میں ایک شیشے کا کارخانہ لگانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔
دل پر پتھر رکھ کر حمیدہ بیگم احمد میاں کے ساتھ لاہور آن بسیں۔ دو کمروں اور ایک دالان پر مشتمل گھر حمیدہ بیگم کو کاٹ کھانے کو آتا۔ احمد میاں بیگم کی بیرونی اور اندرونی حالت سے با خبر تھے لیکن کو ئی چارہ بھی تو نہ تھا۔
حمیدہ بیگم ایک شرمیلی اور اپنے آپ میں رہنے والی خاتون تھیں ورنہ محلہ داری نظام ان کی بوریت ختم کرنے کو وہاں پورے طمطراق سے موجود تھا۔
محلے میں سب متوسط طبقے کے لوگ رہائش پذیر تھے۔ اسی محلے میں گلاب دیوی ہسپتال میں کام کرنے والی ایک نرس ’مقصودہ مسیح ‘ کا بھی مسکن تھا۔ مقصودہ مسیح کو ہر خاص و عام انُ کے اصل نام کے بجائے ’سسٹر‘ کے نام سے مخاطب کرتا تھا۔
لمبے ڈیل ڈول اور سانولی رنگت والی مقصودہ ہر صبح ہسپتال جانے کے لیے اجلے کلف لگے سفید یونیفارم میں گلی سے گزرتی تو کوئی نا کوئی محلہ دار رستے ہی میں اس سے اپنی تکلیف یا بیماریوں کا رونا رونے کو تیار ہوتا اور مقصودہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے دوائیوں کے نسخے لکھ کر اپنی منزل کی جانب چل پڑتی۔
کہنے والے صحیح کہتے ہیں کہ نرسیں ڈاکٹروں سے زیادہ تجربہ کار ہو جاتیں ہیں۔ نرس کی پہلی تربیت ہی مریض کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے اور مقصودہ میں یہ خوبی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
حمیدہ بیگم کو چھٹے مہینے طبیعت میں گرانی محسوس ہوئی تو احمد میاں انہیں ہسپتال لے جانے کو ہی تھے کہ اچانک انھیں سسٹر مقصودہ کا خیال آیا اور اس کے بعد حمیدہ بیگم تھیں اور مقصودہ۔ دونوں میں گاڑھی چھیننے لگی۔
خدا نے مقصودہ کی صورت میں حمیدہ بیگم کو ایک بہن، سہیلی اور خدمتگار دے دیا تھا۔ مقصودہ کو اس گھر سے اپنائیت سی ہو گئی تھی کیونکہ وہ بے دھڑک اس گھر کے برتنوں کو استعمال کر سکتی تھی جو دوسرے گھروں میں قطعی ممکن نہ تھا۔
اس نے بچپن ہی سے اس معاشرے میں دوسروں کے ہاں اپنے جیسوں کے استعمال کے لیے ٹوٹے مگ، گلاس اور بوسیدہ پلیٹں دیکھیں تھیں۔
مقصودہ ہسپتال جانے سے پہلے اور واپسی پر روز حمیدہ بیگم کے گھر حاضری دیتی۔ حمیدہ بیگم کے ہاتھ کے بنے کھانوں کا ذائقہ مقصودہ بھا گیا تھا۔
دوسری جانب حمیدہ بیگم کو بھی گھر بیٹھے اپنے حمل اور ہونے والے بچے کے بارے رہنمائی کرنے والی ایک دوست نما نرس میسر تھی۔
مقصودہ نا صرف گلاب دیوی ہسپتال بلکہ پورے علاقے کی بہترین، تجربہ کار اور مخلص نرس کا درجہ رکھتی تھی۔
محلے کا کوئی گھر یا فرد ایسا نہ تھا جس کی نا گہانی افتاد پر یا بیماری پر مقصودہ نے اپنے فرائض اور محلے داری کی روایات سے چشم پوشی کی ہو۔
ہر ایک کے کام آنے والی مقصودہ مسیح کو لوگ اپنی پوشیدہ بیماریوں، بیویوں کے حاملہ ہونے،ان کے بچہ جننے اور بچوں کی ’مسلمانی‘ سے لے کر بچیوں کی بلوغت کے مسائل تک میں آگے آگے رکھتے۔
تاہم جب انہیں گھروں میں بات نذر و نیاز، سالگرہ یا شادی کی تقریبات کی ہوتی تب مقصودہ صرف ایک مسیحی عورت سمجھی جاتی۔ جو بنیادی طور پر ایک ’چوہڑے‘ کی اولاد تھی اور نرس ہوجانا بھی کوئی فخر کی بات ہے ؟ نرس بھی تو ہسپتال اور محلے کے مریضوں کا گند ہی صاف کرتی ہیں۔
حمیدہ بیگم کا پہلا بیٹا مقصودہ کے ہاتھوں تولید ہوا۔ پورے سوا مہینے مقصودہ نے حمیدہ بیگم کو زمین پر پاؤں دھرنے نہ دیا۔
منہ اندھیرے ہی وہ دونوں میاں بیوی کو ناشتہ کروا اور بچے کی مالش کر کے ہسپتال روانہ ہوتی۔ پھر واپسی پر بچے کچھے دیگر کام نمٹا کر اپنے گھر جاتی۔ بچے کے لیے اپنے ہاتھوں سے سوئیٹر بُن کر اور کپڑے سی کر پہناتی۔
حمیدہ بیگم اور احمد میاں کا پہلوٹی کا بیٹا ماں باپ کی نسبت مقصودہ سے زیادہ مانوس ہو گیا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب پانی کی لائنیں گھروں تک نہیں پہنچائی گئیں تھیں۔ علاقے میں ایک کنواں تھا، تمام محلے والے اسی کنویں سے پانی بھرتے تھے۔
مقصودہ بھی اسی قطار میں روز موجود تو ہوتی لیکن جب اس کی باری آتی تو اپنی بالٹی کنواں سے پرے رکھ کر کھڑی ہوجاتی۔ وہاں موجود کوئی بھی دوسرا محلہ دار ڈول میں پانی بھر کر اس کی بالٹی میں انڈیل دیا کرتا۔ برسوں سے یہی ہوتا آیا تھا کیونکہ محلے والوں کی نظر میں کوئی غیر مسلم اگر کنویں کے ڈول کو ہاتھ لگا کر خود پانی کھینچے گا تو پورا کنواں ناپاک ہو جائے گا۔
اس برس بارشیں کم ہونے کی بنا پر کنواں کا پانی تہہ سے لگتا جارہا تھا اس لیے سارے محلے والوں نے پانی کا استعمال محدود کر دیا تھا۔
آج مقصودہ کو ہسپتال میں ایمرجنسی میں ڈیوٹی لگنے کی صورت میں جلدی آنے کا کہا گیا تھا۔ گھر میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی اور اس وقت کنویں پر کوئی محلہ دار بھی موجود نہ تھا۔
کچھ دیر انتظار کے بعد مقصودہ خود ہی پانی لینے چل پڑی۔ آس پاس کوئی نہ تھا لہٰذا خود ہی ڈول ڈال کر پانی کھینچنے لگی۔
آنے والے وقت سے بے خبر وہ تیار ہو کر حسب معمول حمیدہ بیگم کے گھر سے ہوتی ہوئی ہسپتال پہنچی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ پانی نکالتے ہوئے ایک محلے دار نے دیکھ کر پورے محلے کو کنویں کے ناپاک ہونے کی اطلاع بڑھا چڑھا کر سنائی تھی۔
شام کو جب مقصودہ گلی میں پہنچی تو تمام لوگ اسے حقارت اور غصے کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ محلے کے بزرگوں کے سامنے اس کی پیشی ہوئی۔ اسے کنویں کے پانی کو ناپاک کرنے کے جرم پر خوب لعن طعن کیا گیا۔
مقصودہ کے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ بقول حمیدہ بیگم اور احمد میاں کے مقصودہ سب کی تلخ باتیں سنتی رہی اور پھر اس کا جواب کچھ یوں تھا:
’ ٹھیک ہے آج میرے ایک بے جان کنویں اور ڈول کو ہاتھ لگانے سے پانی نجس اور ناپاک ہوگیا لیکن ایک مسیحی نرس کے ہاتھوں سب کے جسموں پر مرہم پٹی کراتے ہوئے، اپنی بیویوں کے بچے جنواتے ہوئے، اپنے بچوں کو ٹیکے لگواتے ہوئے، پٹیاں بندھواتے ہوئے کیا آپ سب لوگ نجس اور ناپاک نہیں ہوئے؟‘
اس نے اپنی بات جارہ رکھتے ہوئے کہا ’اگر ایک کنواں اور اس کا پانی میرے ہاتھ لگانے سے ناپاک ہوگیا تو یہ سارا محلہ اور اس میں بسنے والے سب لوگ بھی ناپاک ہیں کہ آپ سب کی بیماریوں میں مَیں نے آپ سب کو چھوا ہے‘۔
سب کو گنگ چھوڑ کر مقصودہ اپنے گھر چلی گئی۔ محلے کے چند لوگوں نے مقصودہ کی طرفداری بھی کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا۔
حمیدہ بیگم اور احمد میاں کی رات آنکھوں میں کٹی۔ صبح سویرے دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے مقصودہ کے دروازے پر پہنچے تو بند دروازے پر لگا تالا پورے محلے کو منہ چڑا رہا تھا۔
محلے کے ہر دکھ میں کام آنے والی مقصودہ نےاپنے گھر کو ہمیشہ کے لیے اس لیے تالہ لگا دیا کہ وہ ایسی جگہ نہیں رہنا چاہتی تھی جہاں کے لوگوں کے ذہن اور دل ہی دونوں مقفل ہوں۔