اپنے آپ کو امن کا معمار بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے منفرد انداز اور بے باک بیانات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ آئے روز ان کا کوئی نہ کوئی بیان دنیا کی سیاست میں ہلچل مچا رہا ہوتا ہے۔ کبھی کسی ملک کے رہنما کو اپنا پسندیدہ قرار دے دیتے ہیں تو کبھی کسی کو پل بھر میں ہیرو سے زیرو بنا ڈالتے ہیں۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اصل میں ان کی پسندیدہ شخصیت کون ہے، کس کو وہ ہیرو مانتے ہیں اور اس ہیرو کے کارنامے کیا ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت سارے بیانات منظرِ عام پر آئے، جن میں انہوں نے ہمارے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تعریف کی اور انہیں اپنا پسندیدہ فیلڈ مارشل بھی کہا۔ اس سے قبل وہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں بھی اسی طرح کے بیانات دے چکے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ واقعی ان کو اپنا ہیرو اور دوست سمجھتے ہیں؟ جی نہیں، یہ سب محض باتیں ہیں۔
اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اصل دوست اور ہیرو کون ہے تو آپ ان کا حالیہ خطاب سنیں جو انہوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں کیا۔ انہوں نے غزہ جنگ بندی کو اپنی ایک عظیم سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے فخر و انبساط کے ساتھ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو ہیرو اور فاتح کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس خطاب کو پاکستان کے تمام ٹیلیویژن اسکرینز پر براہِ راست دکھایا گیا۔
عالمی امن انعام کے خواہش مند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک ہیرو وہ ہے جس نے غزہ میں بچوں اور عورتوں سمیت لاکھوں افراد کو شہید کرنے کا پلان بنایا، جس نے فلسطین میں تاریخی نسل کشی کروائی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔ امن انعام کے طلبگار کے نزدیک ہیرو وہ ہے جس نے عرب سرزمین پر ناجائز قبضہ جما کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر کا امن تباہ کر رکھا ہے۔
یہ سب تو ایک جگہ، اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو ’عظیم ترین جنگی رہنماؤں‘ میں سے ایک بھی قرار دے دیا۔ یہی نہیں، ٹرمپ نے اسرائیلی صدر اسحاق ہرتزوگ سے رشوت کے الزامات کو معمولی قرار دیتے ہوئے نیتن یاہو کو معاف کرنے کی اپیل بھی کی۔ یعنی اپنے پسندیدہ شخص کے لیے کرپشن بھی ایک معمولی چیز ہے، جنگی جرائم اور غزہ میں انسانی تباہی تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔
نیتن یاہو کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ امریکا سمیت اقوام متحدہ کی بھی کوئی بات نہیں سنتا۔ جب، جہاں جو دل کرتا ہے، بغیر کسی ڈر اور جھجک کے سرانجام دے بیٹھتا ہے۔ شام، اردن، ایران اور قطر پر حملوں کو ہی دیکھ لیں، ساری دنیا نے مذمت کی، امریکا نے روکا، لیکن نیتن یاہو نہیں رکا، یہی تو اس کی ’ہیرو پنتی‘ ہے۔
اس نام نہاد ہیرو کی جارحانہ حکمتِ عملی اور جنگی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 3-4 ہفتے قبل یہ ہیرو پورے غزہ کو مٹانے کے مشن پر نکلا تھا۔ اگر آپ نے 2 برس کی غزہ جنگ کو تسلسل کے ساتھ فالو کیا ہو تو یاد ہوگا کہ غزہ پر چڑھائی کرتے وقت اس ہیرو نے اپنا ہدف حماس کا خاتمہ بتایا تھا۔ مگر جب حماس نے اسرائیلی فوج کے ہی چودہ طبق روشن کرنے شروع کیے تو یہ ہیرو سویلینز کے قتلِ عام پر اتر آیا۔
حماس کے خاتمے کا امکان دور دور تک نظر نہ آیا تو ایران پر چڑھائی شروع کر دی۔ جب وہاں بھی سبکی ہوئی اور ایران نے تل ابیب میں میزائلوں کی بوچھاڑ کی اور اگلے پچھلے حساب چکانے کی ٹھان لی تو ٹرمپ کے پیر پکڑ کر اس شوق سے بھی راہِ فرار اختیار کر لی۔
حالات یہ ہیں کہ اب ہیرو اور اس کے آقا دونوں اس قدر جلدی میں ہیں کہ اس معاہدے کے ابھی باقی 2 مراحل پر بات چیت ہوئی نہیں اور پہلے مرحلے کی بات چیت پر ہی پورا معاہدہ طے کر لیا گیا۔ اب جنگ بندی بھی ہو گئی، نیتن یاہو کی ساری باتیں بھی مان لی گئیں، البتہ بڑے رہنما اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار شہید تو ہو گئے لیکن حماس ختم نہیں ہو سکی۔
اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ٹرمپ کا ہیرو ہی اصل ہیرو ہے یا وہ لوگ جو ابھی تک مزاحمت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













