ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان وفود کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد حکام نے بتایا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کو سرحدی دہشتگردی روکنے کے لیے ایک جامع اور عملی پلان پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان دوحہ معاہدہ: کیا افغان طالبان دیرینہ جہادی گروپ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے؟
مذاکرات 9 گھنٹے تک جاری رہے اور دونوں طرف سے سرحدی نگرانی، نقل و حرکت روکنے اور تجارتی رکاوٹیں دور کرنے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
میزبان اور شرکا
مذاکرات استنبول کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئے جن کی میزبانی ترکیہ کے اعلیٰ حکام نے کی۔ پاکستان کی نمائندگی 4 رکنی وفد نے کی جس میں ڈی جی ایم او اور ڈپٹی ڈی جی ایم او شامل تھے جبکہ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب نے کی۔

اہلکاروں کے مطابق بات چیت میں قطر اور ترکیہ کی ثالثی کے ذریعے طے پائے گئے پہلے دور کے نکات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستان کا پیش کردہ جامع پلان
میڈیا رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طالبان کو دہشتگردی کی روک تھام کے لیے ایک مفصل پلان دیا جس میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
سرحد پار دہشتگردی کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے مشترکہ نگرانی کے طریقہ کار کا قیام۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات، میری خوش فہمی نہ ہو لیکن مجھےان میں امن نظر آیا تھا، خواجہ آصف
حساس سرحدی راستوں پر کنٹرول اور اطلاعاتی تبادلے کے میکانزم۔
تجارتی راہداریوں کی حفاظت اور بندش کی صورت میں تیزی سے از سرِنو بحالی کے اقدامات۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پلان کا مقصد عملی اقدامات کے ذریعے تشدد کم کرنا اور طویل المدتی سیاسی مفاہمت کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔
ٹی ٹی پی، نئی جگہ کی پیشکش اور عملی ضمانتیں
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں نئی جگہ منتقل کرنے کی کسی پیشکش کو مسترد کیا۔

اسی کے ساتھ پاکستان نے طالبان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیوں کی ضمانت دیں ورنہ مذاکراتی عمل ناکافی سمجھا جائے گا۔
سیکیورٹی خدشات اور سیاسی بیان بازی
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام رہیں تو ’ہماری اور افغانستان کی کھلی جنگ‘ کے امکانات موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں جاری، بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی، خواجہ آصف
یہ بیان اس حساس پس منظر میں آیا جس میں پاکستان نے طالبان سے عملی اقدامات اور واضح عزم مانگا ہے۔ مقامی اور علاقائی سطح پر اس بیان نے مذاکرات کے نتائج پر بریک تھرو کی اہمیت واضح کر دی ہے۔
اقداماتِ فوری اور آئندہ لائحہ عمل
سرکاری ذرائع کے مطابق اگلے مراحل میں عملدرآمد کی نگرانی کے لیے میکانزم قائم کیے جائیں گے، فریقین نے جلدی رابطوں اور تکنیکی ورکنگ گروپس کے قیام پر بھی اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔
بین الاقوامی ثالث خصوصاً قطر اور ترکیہ اس عمل میں تسلسل فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، اور عملدرآمد کی شفافیت کے لیے مخصوص ٹائم فریم طے کرنے کی سفارش زیر غور ہے۔














