شبِ عُرسِ رومیؒ: فکر، عشق اور ثقافتی شعور کی ایک روشن شام

جمعرات 18 دسمبر 2025
author image

صبح صادق

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مولانا جلال الدین بلخی رومیؒ کی شبِ عُرس صدیوں سے انسان کو عشق، وصل اور خود شناسی کا پیغام دیتی آ رہی ہے۔ مولانا رومیؒ کے نزدیک وفات جدائی نہیں، بلکہ محبوبِ حقیقی سے ملاقات کا لمحہ ہے، اسی لیے انہوں نے اپنی موت کو شبِ عُرس قرار دیا۔ آج جب دنیا فکری انتشار، عدم برداشت اور روحانی خلا کا شکار ہے، فکرِ رومی پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور بامعنی محسوس ہوتی ہے۔

اسی فکری و روحانی پس منظر میں لاہور آرٹس کونسل الحمرا میں مولانا رومیؒ کی 752ویں برسی کے موقع پر ایک نہایت خوبصورت، باوقار اور فکری نشست کا انعقاد کیا گیا۔ یہ تقریب محض ایک یادگاری اجتماع نہیں تھی بلکہ فکرِ رومی کے زندہ اور عصری پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش تھی۔

اس موقع پر فارسی زبان و ادب کے بلند پایہ عالم ڈاکٹر معین نظامی نے مولانا رومیؒ کی فکری عظمت، ان کے تصورِ عشق اور انسان دوستی پر نہایت مدلل اور بصیرت افروز گفتگو کی۔ ان کا اظہار اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ رومیؒ کی فکر آج بھی دلوں کو جوڑنے اور انسان کو اس کے باطن سے روشناس کرانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

تقریب کے مہمانِ اعزاز ڈاکٹر محمد محبوب عالم چوہدری تھے، جنہوں نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں اس بات پر زور دیا کہ صوفیانہ فکر بالخصوص مولانا رومیؒ کا پیغام موجودہ دور میں معاشرتی ہم آہنگی، برداشت اور روحانی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کے کلمات نے تقریب کے فکری وقار میں مزید اضافہ کیا۔

اس موقع پر مقررین اور شرکاء نے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل الحمراء، محمد نواز گوندل کی بصیرت، ذوق اور ثقافتی فہم کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا، جن کی کاوشوں سے یہ تقریب نہ صرف منعقد ہوئی بلکہ ایک شاندار، منظم اور باوقار انداز میں سجائی گئی۔ یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آئی کہ الحمراء ان کی قیادت میں علم، ادب اور صوفیانہ روایت کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔

تقریب کا مجموعی ماحول روحانیت، فکری سکون اور تہذیبی شعور سے لبریز تھا، جہاں یہ احساس گہرا ہوتا چلا گیا کہ مولانا رومیؒ محض ماضی کی شخصیت نہیں، بلکہ آج کے انسان کے لیے بھی ایک زندہ رہنما ہیں۔

گفتگو کے دوران فارسی زبان و ادب کے ممتاز عالم ڈاکٹر معین نظامی نے کہا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ ایک عظیم علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں مثنوی معنوی جو چھ دفتر (جلدوں) پر مشتمل ہے، دیوانِ شمس تبریزی اور فیہ ما فیہ شامل ہیں، جو مولانا رومیؒ کے پورے نظامِ فکر کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔ یہ تصانیف محض کتابیں نہیں بلکہ ایک مکمل فکری و روحانی روایت ہیں، جو آج بھی انسان کو اس کے باطن سے جوڑتی ہیں۔

ڈاکٹر معین نظامی نے کہا کہ مولانا رومیؒ کی فکر کو نئی نسل تک منتقل کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اور یہ دراصل خود مولانا رومیؒ کی ایک سنہری کاوش کا تسلسل ہے۔ ان کے مطابق مولانا رومیؒ اپنے دور میں معاشرے کے ہر طبقے کے لیے دستیاب تھے؛ عالم، عامی، فقیر، امیر، سب ان سے یکساں فیض یاب ہوتے تھے۔

انہوں نے نہایت فکر انگیز نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ مولانا رومیؒ کے ہاں خاموشی ایک مقدس تصور ہے۔ اصل فن خاموش رہنا ہے، مگر آج کے شور و غوغا سے بھرپور عہد میں ہم اس فن میں الجھے ہوئے ہیں کہ خاموش کیسے نہ رہا جائے۔ اس تضاد پر غور کرنا ہی دراصل فکرِ رومیؒ کو سمجھنے کی ابتدا ہے۔

ڈاکٹر معین نظامی کے مطابق مولانا رومیؒ کی تعلیمات پھولوں کی طرح ہر سمت پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے صرف فارسی ہی نہیں بلکہ یونانی اور ترکی زبان میں بھی اشعار کہے۔ ان کی تصانیف کے دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مولانا رومیؒ کسی ایک خطے یا قوم کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے شاعر اور مفکر ہیں۔

انہوں نے ایک نہایت خوبصورت اور معنی خیز واقعہ بھی بیان کیا کہ جب مولانا رومیؒ کا وصال ہوا اور ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو اس میں ہر مذہب اور ملت کے نمائندے شریک تھے۔ ہر مذہب کے لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ ہم اپنے اپنے طریقے سے ان کا جنازہ پڑھانا چاہتے ہیں، کیونکہ ہر ایک نے مولانا رومیؒ کی تعلیمات کو اپنے اپنے فکری اور روحانی نظام کے مطابق پایا۔ یہ واقعہ مولانا رومیؒ کی آفاقی انسان دوستی کی روشن مثال ہے۔

اس موقع پر یہ پہلو بھی نمایاں کیا گیا کہ مولانا رومیؒ کو محض فلسفیانہ مباحث کے تناظر میں نہیں پڑھنا چاہیے، بلکہ ان کی تحریروں اور خطوط میں انسان دوستی، محبت اور رواداری کی بے شمار شہادتیں ملتی ہیں۔ آج کے خوف، نفرت اور انتشار سے بھرپور دور میں مولانا رومیؒ کی تعلیمات کو آگے منتقل کرنا بلا شبہ ایک نہایت خوبصورت اور بامعنی عمل ہے۔

یہ بھی واضح کیا گیا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ 1207ء میں بلخ (موجودہ افغانستان) میں پیدا ہوئے اور 1273ء میں قونیہ (ترکی) میں وفات پائی، مگر ان کا فکری سفر آج بھی پوری دنیا میں جاری ہے۔

ڈاکٹر معین نظامی نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ مولانا رومیؒ کے ہاں قصہ گوئی ایک نمایاں فنی وصف ہے، جو خاص طور پر مثنوی معنوی میں کثرت سے نظر آتا ہے۔ قصے کے ذریعے بات کہنے کا فن جنوبی ایشیا کی قدیم ادبی روایت میں بھی نمایاں رہا ہے، اور رومیؒ نے اسی اسلوب کو روحانی حکمت کا وسیلہ بنایا۔

آخر میں علامہ محمد اقبالؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ: اقبالؒ کے نزدیک رومیؒ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ

لوگوں نے رومیؒ سے جسم کا رقص تو سیکھ لیا،

مگر روح کا رقص سیکھنے سے محروم رہ گئے۔

تقریب میں ایک نامور صداکار افیرا نے مولانا جلال الدین رومیؒ کے منتخب کلام پر نہایت مؤثر اور دلنشیں انداز میں تحت اللفظ قرأت پیش کی، جس نے ہال میں موجود سامعین کو فکرِ رومیؒ کی گہرائی سے جوڑ دیا۔ اس پیشکش کے ذریعے مولانا رومیؒ کا آفاقی پیغام بڑی تعداد میں موجود حاضرین تک نہایت خوبصورت انداز میں پہنچا اور محفل پر روحانی کیفیت طاری ہو گئی۔

تقریب کے اختتام پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل الحمراء محمد نواز گوندل نے گفتگو کے مقرر ڈاکٹر معین نظامی اور تقریب کے مہمانِ اعزاز ڈاکٹر محمد محبوب عالم چوہدری کو یادگاری سووینئرز پیش کیے اور ان کی علمی و فکری خدمات کو سراہا۔

الحمراء کی یہ خوبصورت شام محض تقاریر تک محدود نہ رہی بلکہ اس میں ایک بھرپور سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد ہوا، جہاں شرکاء نے مولانا رومیؒ کی فکر، ان کے پیغام اور عصرِ حاضر میں اس کی معنویت پر سوالات کیے، جن کے تسلی بخش اور فکری جوابات نے نشست کو مزید بامقصد بنا دیا۔

یوں یہ تقریب علم، روحانیت، مکالمے اور ثقافتی شعور کا حسین امتزاج بن کر اختتام پذیر ہوئی، اور حاضرین اس احساس کے ساتھ رخصت ہوئے کہ فکرِ رومیؒ آج بھی زندہ ہے، رہنمائی کرتی ہے اور انسان کو انسان سے جوڑنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp