دبئی کے مال آف ایمریٹس میں جلد ہی شاپنگ سے جی اُکتا گیا تو اس وسیع و عریض مال میں ایک ’بارڈرز‘ نامی اکلوتی کتابوں کی دکان پر نظر پڑی۔ افراتفری اور بےہنگم شور میں سنسان پڑی یہ دکان ہمارے لیے کسی جنت سے کم نہ تھی۔ اس بڑی سی دکان میں ہر شعبے و عنوان پر لکھی قیمتی کتابیں نفاست سے شیلفوں میں رکھی تھیں اور چاروں اطراف میں صوفے موجود تھے تاکہ قارین سکون سے مطالعہ کر سکیں۔ یہاں کونے کی ایک دیوار پر بڑے سائز کی ٹی وی اسکرین آویزاں تھی جس پر بنا آواز بی بی سی نیوز چینل لگا ہوا تھا۔
ہم سب مختلف شیلف میں رکھی اپنی من پسند کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف تھے کہ یکایک میرا موبائل فون بجنا شروع ہوگیا۔ یہ کال دبئی میں میری بہن کی تھی۔ کال سنتے ہی ہم سب کی نظریں ٹی وی اسکرین کی جانب اٹھ گئیں ۔ جہاں بریکنگ نیوز میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کی روح فرسا خبر نشر کی جارہی تھی۔
دماغ ایسا سُن ہوا جیسے کسی بڑے طوفان کے آنے سے پہلے سناٹا سا محسوس ہوتا ہے۔
آس پاس موج مستی، شاپنگ میں مشغول لوگ بھاگ کر ٹی وی پر اس لرزہ خیز خبر کو سننے اور دیکھنے اس سنسان دکان میں داخل ہو گئے۔ اس وقت اس سے قطعہ نظر کون کیا ہے؟ —کہاں کا ہے؟ ۔۔۔۔کیا کرتا ہے؟۔۔۔ تمام آنکھیں آبدیدہ نظر آئیں۔ کئی لوگ باقاعدہ رونے لگے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے دکان کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو اور تمام کتابیں اس آگ میں جل کر خاکستر ہو گئیں ہوں۔
چاروں جانب دھواں کے بادل ہوں جس میں ہر ذی روح کا دم گھٹنے کے قریب ہو۔
دل بولا! ابھی تو اتنے سال کی جلاوطنی کاٹ کر آئی تھیں
بی بی۔۔۔کندن ہی بن کر تو آئی تھیں۔
وہ تو جال بچھانے والوں کی عیاریوں، مکاریوں اور گھناؤنی سازشوں کا مقابلہ کر کے واپس آئی تھیں۔
ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر سیاست کو ایک نئی راہ پر ڈالنے کے لیے واپس آئی تھیں۔
سب کو ساتھ لے کر چلنے، سب کی آخری امید بن کر واپس آئی تھیں۔
سوال پیدا ہوا کہ کتنی مہارت سے صنم بھٹو کے علاوہ پورا بھٹو خاندان ختم کر دیا گیا۔ اس ملک کے کرتا دھرتاؤں نے بالآخر عوام کی آخری آس و امید بھی توڑ دی تھی ۔
وہ یہ جانتی تھیں کہ پاکستان واپسی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہی۔ جب وہ چھوٹی لیکن سمجھدار ’پنکی‘ تھیں، تبھی سے اس کی اور اس کے خاندان کی زندگیوں کو تنگ کیا جانے لگا تھا۔ وہ فیصلہ سازوں کے ہتھکنڈوں کی عادی ہو چکی تھیں۔
اس کے باپ کو جو پاکستان کی تاریخ کے سب سے معروف سیاستدان اور وزیراعظم تھے، ایک جھوٹے کیس میں پھانسی سنائی گئی۔
پھانسی سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی اس لاڈلی (بے نظیر بھٹو) کو آخری ملاقات میں اپنے والد سے گلے تک نہیں ملنے دیا گیا۔ آہنی سلاخوں کے درمیان باپ بیٹی کی ملاقات کا احوال کتنا دردناک ہوگا اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔
بس شاید ’پنکی‘ کی زندگی کا وہی لمحہ تھا جب اس نے سیاسی میدان میں پنجہ آزمائی کا فیصلہ کیا ۔
نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پر گھٹیا اور نازیبا الزام لگائے گئے۔ ان کی سرعام کردار کشی کی گئی۔ بے نظیر کی ماں نے احتجاجی مظاہروں میں ڈنڈے کھائے، زخمی ہوئیں لیکن ثابت قدم رہیں۔
بے نظیر نے کئی سال جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر سیاسی میدان میں پوری سج دھج سے نمودار ہوئیں۔
ضیا آمریت کا خاتمہ ہوا تو پاکستان واپسی پر ’پنکی‘ کے استقبال کے لیے ایک جم غفیر موجود تھا۔ وہ جلد ہی پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا پہلی خاتون وزیراعظم قرار پائیں۔
فیصلہ سازوں کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں کیوں کہ اپنے تئیں تو وہ پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹا چکے تھے۔
بے نظیر دو بار پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔
پھر وہی کہانی دہرائی گئی، نئے کردار سامنے لائے گئے جنہوں نے بے نظیر پر سینکڑوں جھوٹے مقدمات بنائے۔ تین بچوں کی ماں کو آئے دن مقدمات کی پیشیاں بھگتنی پڑتیں۔
شوہر پچھلے 8 سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا۔ آخر کار اسے دوبارہ بچوں سمیت جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ ملک میں آمریت پوری طرح پنجے گاڑے ہوئے تھی۔ لیکن آمریت ایک فرسودہ سیاسی نظام ہونے کی بنا پر جلد یا بدیر اپنی موت آپ مر جاتی ہے، سو اس بار بھی مطلق العنان آمر کو ان سیاستدانوں کو ’قومی مفاہمتی فرمان ‘ کے تحت وطن واپسی کی اجازت دینی پڑی جنہیں غدار کہہ کر ملک بدر کیا گیا تھا۔
اس بار بے نظیر کو ملک واپسی پر جان سے مارنے کی کئی بار دھمکی دی جا چکی تھی کہ دھمکی دینے والے جانتے تھے کہ یہ وہ 1999 والی بے نظیر نہیں بلکہ ایک منجھی ہوئی سیاستدان بن چکی ہیں تمام اسرار و رموز سے واقف ہو چکی ہیں۔ وہ موت کے ڈر کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔
وہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے جب عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کراچی ایئر پورٹ پر ’بی بی‘ کے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔
18 اکتوبر کی سہ پہر جب وہ آنکھوں میں آنسو لیے طیارے سے اتریں، آسمان کی طرف دیکھا، وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھیں کہ ایک سفید کبوتر نہ جانے کہاں سے اُن کے کندھے پر آ بیٹھا تھا۔ اور کیمرے کی آنکھ میں یہ لمحہ محفوظ ہوگیا۔
’ بی بی ‘ کا کارواں لاکھوں لوگوں کے جھرمٹ میں روا دواں تھا۔ آج خلاف معمول شارع فیصل کی تمام اسٹریٹ لائٹس بھی بند تھیں۔ کئی بار وزیر داخلہ سے درخواست کے باوجود سیکیورٹی کے اقدامات انتہائی ناقص رہے۔ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جاری تھا کیوں کہ اس کندن کو مٹی میں ملانا مقصود تھا۔
ایک زوردار بم دھماکے نے جیسے سب کے ذہن ماؤف کر دیے اور کانوں میں سوائے سائیں سائیں کے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
جیالوں اور ’بی بی‘ کے مداحوں کی لاشیں کارساز پر بکھری پڑی تھیں اور سڑکوں کو پانی کی تیز دھاروں سے دھویا جارہا تھا۔
معجزاتی طور پر ’بی بی‘ اس خودکش دھماکے میں محفوظ رہیں۔ جی دار ایسی کہ دھماکے کے فوراً بعد زخمی کارکنوں کی داد رسی کے لیے اسپتال جا کر ان کی عیادت کی۔ دوسرے دن پریس کانفرنس کر کے اپنے کارکنوں کی ہمت افزائی کی۔
’بی بی‘ نے دو ٹوک انداز میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر ان کی جان گئی تو اس کی ذمہ دار حکومت وقت ہو گی۔
اس ملک کے کرتا دھرتاؤں نے ’بی بی‘ کو مزید زندہ نہ رکھنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔ 27 دسمبر 2007 کی شام لیاقت باغ میں اپنی زندگی کی آخری تقریر کرنے کے کچھ ہی دیر بعد نامعلوم گولی نے ان کی جان لے لی اور اس ملک کو ایک جہان دیدہ سیاستدان سے محروم کردیا گیا۔
آج سولہ سال بعد ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کے ہیومن رائٹس سیل کی افتتاحی تقریب میں اور بی بی کی 70ویں سالگرہ پر آصفہ بھٹو زرداری کو اپنے روبرو دیکھ اور سن کر بے نظیر بھٹو شہید کی یاد تازہ ہوگئی۔
وہ آج بھی بے نظیر ہی ہیں کہ آخر تک ڈٹی رہیں یہاں تک کہ شہید کر دی گئیں۔
آج بھی ’بی بی‘ کی شہادت کا دن یاد آتا ہے تو یہ شعر خود بخود میرے تخیل میں آجاتا ہے۔
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن، پس مرگ ہم نے بھلا دیا
بد قسمتی سے ہمارے ملک کا یہی مختصر سا افسانہ ہے کہ کسی بھی حکومت کو مدت پوری نہ کر نے دی جائے اور اگر کوئی لیڈر عوام میں مقبولیت کی سند حاصل کرلے تو اسے پھانسی چڑھا دو یا جلا وطن کردو۔ یعنی ملک اور نہ ہی اداروں میں استحکام آئے، نہ ہی کوئی لیڈر مستحکم ہو سکے۔