ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے، چیف جسٹس

جمعہ 21 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمرعطا بندیال نے قرار دیا ہے کہ ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جبکہ اٹارنی جنرل دلائل دے رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان  منصور عمان اعوان نے اپنے دلائل میں کہا’ عدالت کا سوال یہ ہے کہ ملزمان کو فیئر ٹرائل کا حق ملے گا یا نہیں؟ پہلے عدالت کو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کا طریقہ کار بتاتا ہوں، پھر سوالات کا جواب دوں گا، آرمی ایکٹ کے سیکشن میں سول جرائم کی بات بڑی واضح ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پچھلی سماعت پر 9مئی کی منصوبہ بندی کی تفصیلات عدالت کے سامنے رکھی تھیں، نہیں چاہتے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ مستقبل میں دوبارہ کبھی ہو۔ عدالت میں دکھائے گئے وڈیو کلپس سے ظاہر ہے کہ نو مئی واقعات میں بہت سے افراد شامل تھے۔ صرف 102 افراد کو بہت محتاط طریقے سے گرفتار کر کے کورٹ مارشل کے لیے منتخب کیا گیا۔ دوبارہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 پڑھیں جس میں سویلینز کے ٹرائل کی بات کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی سویلین افواج کا ڈسپلن خراب کرے تو بھی قانون کے دائرے میں آتا ہے،  آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت اگر کوئی سویلین دفاعی نظام میں رکاوٹ ڈالے تو وہ اس قانون کے نرغے میں آتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میانوالی ائربیس میں جب حملہ کیا گیا اس وقت وہاں جنگی طیارے کھٹرے تھے۔ میانوالی میں ائیر کرافٹ پر حملہ ہوا، ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن میں سول جرائم کی سزا واضح نہیں ہے۔ اکیسویں ترمیم کے بعد صوتحال تبدیل ہوئی، آرمی ایکٹ کے سیکشن میں 2015 میں ترامیم کی گئیں تو تو سویلینز کے ٹرائل کی شقیں شامل کی گئیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟

جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟ قانون بالکل واضح ہونا چاہیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کے لیے اکیسویں ترمیم کی گئی تھی، اور سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کے لیے شرائط رکھی گئیں، انہوں نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کے لیے تھیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں، لگتا ہے کہ اپنی ہی کہی ہوئی بات کی نفی کررہے ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا’ جی، بالکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہوں اور کبھی جارہے ہوں۔ قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے۔ آپ کے دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں۔ پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔ 2015 میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ  بریگیڈیئر ایف بی علی کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سے متعلق تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پراسیس بتاؤں گا پھر عدالتی سوال پر آؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ جس کمانڈنگ آفیسر کی زیر نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے، اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔

اس دوران سپریم کورٹ والے علاقے میں تیز بارش شروع ہوگئی۔ بارش کا شور کمرہ عدالت میں بھی بہت زیادہ سنائی دے رہا تھا جس کے نتیجے میں عدالتی کارروائی میں کچھ خلل واقع ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تیز بارش کے سبب آپ کی آواز نہیں آ رہی ہے۔

ایک ہلکے سے توقف کے بعد اتارنی جنرل نے پوچھا ’کیا معزز ججز کو میری آواز آرہی ہے۔‘ اس پر معززججز نے مسکرانا شروع کر دیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارج کیا جاتا ہے، الزامات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں۔  اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہے۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرواسکتا ہے۔ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کرسکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دوتہائی سے ہونا لازمی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال قید کی سزا نہیں دی جائے گی۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے؟

چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا ’کیا اپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے؟‘

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بیان اج تک کی سٹیج تک کا ہے۔

9 مئی کے واقعات ہر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروادی

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏پاک فوج 9 مئی کے واقعات پر ابھی صرف تحقیقات کررہی ہے، تاحال فوجی عدالتوں میں کسی ملزم کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ ٹرائل سے پہلے حلف بھی لیا جاتا ہے۔ یہ حلف کورٹ میں تمام ممبران ایڈووکیٹ اور شارٹ ہینڈ والا بھی لیتا ہے۔

اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ٹوکتے ہوئے کہا ’میں اپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ساڑھے گیارہ بجے ایک اور کیس بھی ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ  سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے۔ ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے۔ کنفرمیشن سے پہلے جائرہ لیا جاتا ہے کہ ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ وہ پرائیوٹ وکیل کی بھی ملزمان خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف اپیل کے لیے سیکشن 133 موجود ہے۔ وہ 3 ماہ کی زیادہ کی سزا پر 42دن کے اندر اپیل کرسکتے ہیں۔ اپیل کورٹ اف اپیل میں کی جاسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ‏حکومت نے فوجی عدالتوں میں ملزمان کا ٹرائل اوپن کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ملزمان کے وکیل اوراہل خانہ مکمل ٹرائل دیکھ سکتے ہیں۔

ملزمان کو اپیل کا حق ملے گا یا نہیں؟ اس سوال پر اٹارنی جنرل نے ایک ماہ کی مزید مہلت مانگ لی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر بہت محتاط رہ کر غور کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کلبھوشن کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایسے چلنا ہو گا کہ ملکی سالمیت متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ بعض چیزوں کا میں ذکر نہیں کررہا، تاہم بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا ’ہم کسی ریٹائرڈ جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے  فوکل پرسن مقرر کر سکتے ہیں۔  اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس حوالے سے انہیں چیمبر میں بتائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا ’ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔

اس موقع پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں بھی ہوتا رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کو ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں۔ اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔

اس کے بعد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک ماہ کی مہلت طلب کرنے پر بینچ مشاورت کرے گا۔ آئیندہ تاریخ مشاورت کے بعد اپنے حکمنامہ میں شامل کردیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp