سپریم کورٹ: وفاق نے ’فیض آباد دھرنا کیس‘ عملدرآمد رپورٹ جمع کرا دی

جمعہ 27 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں زیر سماعت فیض آباد دھرنا کیس کے حوالے سے اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے عملدرآمد رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنے کے ذمہ داران کے تعین کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے جو طے شدہ ٹی او آرز کے تحت انکوائری کرے گی۔

اٹارنی جنرل کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنا کیس کے 6 فروری 2019 کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع اور ڈائریکٹر آئی ایس آئی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقرر کرلیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ یکم نومبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کیا تھا۔ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، الیکشن کمیشن، آئی بی سمیت دیگر نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

28 ستمبر کو فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے تھے کہ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں، سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس پس منظر

اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔ دھرنے کے نتیجے میں اسلام آباد میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا۔

دھرنے کے منتظمین سے مذاکرات کی ناکامی پر اس وقت کی حکومت نے دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا جس پر ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا تھا اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس پر اپنے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کوئی شخص جو کسی دوسرے شخص کے خلاف فتویٰ جاری کرے جس سے اس کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی اجتماع اور احتجاج کرنے کی حد اس وقت تک ہے جب تک وہ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق، اس کی آزادانہ نقل و حرکت اور املاک کو نقصان نہ پہنچائے۔

‘مظاہرین جو سڑکوں کا استعمال اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے یا تباہ کرتے ہوئے عوام کے حق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے’۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے، ساتھ ہی عدالت نے یہ کہا کہ کمیشن قانون کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جو حکومت میں ہیں ان کے ساتھ بھی اداروں کو آزادانہ طور پر پیش آنا چاہیے، آئی ایس آئی، آئی بی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز پبلک ریلیشن کو اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق مذکورہ ادارے آزادی اظہار رائے کو محدود نہیں کرسکتے اور انہیں نشر و اشاعت کے ساتھ براڈکاسٹر، پبلشر اور اخبارات کی تقسیم میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ آئین پاکستان مسلح فورسز کے افراد کو کسی طرح کی بھی سیاسی سرگرمی، جس میں سیاسی جماعت، گروہ یا فرد کی حمایت ہو اس سے منع کرتا ہے۔

فیصلے میں حکومت پاکستان کو وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے متعلقہ سربراہوں کے ذریعے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں۔ سپریم کورٹ نے پیمرا کو ٹی ایل پی رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقاریر نشر کرنیوالے ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کی ہدایت بھی جاری کی تھی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا تعاون حاصل کیا، تاہم فوج کی تعیناتی سے پہلے ہی 26 نومبر 2017 کی رات کو حکومت اور دھرنے کی ذمہ دار ٹی ایل پی کی قیادت کے درمیان معاملات طے پاگئے اور مظاہرین وردی میں ملبوس شخص سے رقم وصول کرکے منتشر ہوگئے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فریقین نے نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں جن کی سماعت ان دنوں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہیں تاہم بیشتر فریقین اپنی نظر ثانی درخواستیں واپس لے چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp