نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل کی سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک مؤخر

منگل 31 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کو کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر ابتدائی سماعت کے بعد عدالت عظمی کے لارجر بینچ نے اس کیس کی مزید سماعت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب قانون میں ترامیم کیخلاف کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مذکورہ انٹرا کورٹ اپیل سنی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے نیب ترمیم فیصلے کیخلاف اپیل پر آج کی سماعت کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے نیب ترامیم کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے، عدالتی حکم اور اپیلوں کی نقول انہیں جیل میں فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

لارجر بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ اپیل میں وفاقی حکومت نے ایک نکتہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا اٹھایا ہے، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل سعد ہاشمی نے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم کیس پر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون لاگو ہوتا تھا، نیب ترامیم کیس میں بینچ ججز کی کمیٹی نے تشکیل نہیں دیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس نکتے کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ کی یہ دلیل مان لی گئی تو نیب ترامیم کیخلاف درخواستیں زیرالتوا تصور ہوں گی، زیرالتوا درخواست پر ازسر نو 5 رکنی لارجر بینچ فیصلہ کرے گا، جس پر سعد ہاشمی  کا موقف تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون والا نکتہ پہلے بھی اٹھایا تھا۔

اٹارنی جنرل نے اپیلوں پر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کی حمایت کر دی جس کے بعد فاروق نائیک بھی سعد ہاشمی کے ہم آواز ہوگئے اور مرکزی کیس کی ازسر نو سماعت کی استدعا کردی۔

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو اس نکتے پر تکنیکی مسئلے کا بھی سامنا ہےکیونکہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا ہے، معلوم نہیں نمٹائے گئے مقدمات کے حوالے سےتفصیلی فیصلے میں کیا لکھا ہوگا، کیا مناسب نہیں ہوگا پہلے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔

اس سے قبل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اصل کیس میں بھی مخدوم علی خان ہی وکیل تھے اور اپیل میں بھی وہی وکالت کریں گے، فی الحال ان کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی گئی ہے، وہ 3 نومبر تک بیرون ملک ہیں، اس دوران عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل خود دستیاب ہیں۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ کیس میں کچھ دوسری درخواستیں بھی ہیں، جس پر درخواست گزار زوہیر صدیقی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل بھی سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں، لہذا کیس میں شامل ہونے کیلئے درخواست دائر کی ہے کیونکہ ترامیم کالعدم قرار دیے جانے پر میرے موکل کا کیس بحال ہو گیا ہے۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ نے تو ہم سے درخواست میں فیصلہ معطل کرنے کی درخواست ہی نہیں کی، فاروق ایچ نائیک کا موقف تھا کہ اگر ٹرائل نیب سے اینٹی کرپشن کورٹ کو گیا تو ازسر نو ٹرائل شروع ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ نیب قانون کی تیسری ترمیم میں کہا گیا کہ ہر کیس کا دوبارہ ٹرائل ہوگا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ کے ججز کیلئے دشواریوں کی بجائے آسانی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی روشنی میں نیب قانون میں ترامیم کیخلاف کیس 5 رکنی بینچ کو سننا چاہیے تھا، جسٹس اطہر من اللہ کا موقف تھا کہ تیسری ترامیم کا جائزہ لیے بغیر  پہلی اور دوسری ترمیم کیسے کالعدم قرار دی جاسکتی ہے، جس تک تمام ترامیم کو اکھٹا نہ دیکھا جائے کچھ ترامیم کو کیسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

فاروق ایچ نائیک کے مطابق نیب قانون میں متعارف تیسری ترمیم کو نہیں چھیڑا گیا، جس پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے اس ضمن میں تفصیل طلب کرلیں، بتایا جائے کہ نیب قانون کی کتنی ترامیم کالعدم قرار دی گئی ہیں اور کتنی ترامیم اب بھی برقرار ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں کی گئی ایک ترمیم دوسری سے وابستہ ہے، انہوں نے جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں تینوں ترامیم ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، نیب قانون میں تیسری ترمیم کے بعد بھی پانچ ماہ میں 6ترامیم ہوئیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ اس قانونی نقطے پر کافی حیران ہیں، اگر نیب قانون میں تیسری ترمیم سے قبل فیصلہ محفوظ ہو جاتا تو الگ بات تھی، ہمیں ٹرائل کورٹ ججز کو بالکل واضح ہدایات دینی چاہییں۔

بعد ازاں عدالت نے آج کی سمات کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی شق 4کے تحت جہاں آئینی تشریح کا معاملہ ہو 5ججز سے کم کیس نہیں سن سکتے۔ مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو درست قرار دے چکی ہے، درخواست میں فیصلہ معطل کرنے کی درخواست ہی نہیں کی گئی۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب اور دیگر عدالتوں میں زیر سماعت کرپشن مقدمات پر سپریم کورٹ میں اگلی سماعت تک فیصلہ نہیں سنایا جائے گا، تاہم متعلقہ عدالتیں ٹرائل جاری رکھ سکتی ہیں، انٹرا کورٹ اپیل پر مزید سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد کی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، اٹارنی جنرل اور تمام ایڈوکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت ملتوی کردی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp