پنجاب میں انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ۔ بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھتا ہوں جمہوریت اور رول آف لاء ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میں کسی تنازعے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ لیکن جب ملک میں بے یقینی والا ماحول ہو ۔ سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے اختیار کو دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو نوٹس کرنے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔ تحریک انصاف کے وکیل اور اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔ہماری درخواست ہے کہ سیاسی ماحول بہتر کیا جائے۔
سپریم کورٹ اچھی نیت کیساتھ کیس سن رہی ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا موجودہ سیاسی ماحول بہت خراب ہے۔ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے۔ کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے۔ سیاسی پارہ بہت اوپر ہے۔ گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں۔ سپریم کورٹ اچھی نیت کیساتھ کیس سن رہی ہے۔
عمر عطا بندیال نے کہا کہ فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لیکر جاتے ہیں۔ عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ عدالت ملک اور عوام میں ڈسپلن چاہتی ہے۔ سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا ہم بھی اس کیس میں فریق ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں۔ ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمیں قانونی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہئے۔ ہمارے سامنے الیکشن کی تاریخ دینے کا نہیں بلکہ اس تاریخ کو کینسل کرنے کا کیس ہے۔ جمہوریت پاکستان کے آئین میں دیا گیا نظام حکومت ہے۔
اٹارنی جنرل عثمان منصوراعوان نے گزشتہ روز ججز کے اختلافی فیصلے کا حوالہ دیا
اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے گزشتہ روز ججز کے اختلافی فیصلے کا حوالہ دیا۔ کہا میں اس درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا قانون نے صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے۔ عدالت کا یکم مارچ کا فیصلہ اس وقت موجود ہے۔ انتخابات کا اعلان صدر مملکت کرچکے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت میں جو کارروائی ہوئی تھی وہ تاریخ مقرر کرنے کی نہیں بلکہ جو تاریخ مسترد کی گئی تھی اس پر تھی۔ جمہوریت حکومت کا ایک ایسا نظام ہے جس سے نظام چلایا جاتا ہے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا آپ نے پچھلی سماعت پر کہا تھا کہ جمہوریت اس ملک کے نظام حکومت کی بنیاد ہے۔ جمہوریت کو چلنے کے لیے مکالمے اور قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر قومی ادارے کی عزت ہونی چاہیے اور ہر ادارے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہیئے۔
پہلے پی ٹی آئی یقین دہانی کروائے پھر ہم حکومت سے پوچھیں گے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پی ٹی آئی کی طرف سے یہ کنفرمیشن چاہیئے کہ وہ قانون کی عمل داری اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ۔ پہلے پی ٹی آئی یہ یقین دہانی کروائے پھر ہم حکومت سے پوچھیں گے۔ جمہوریت کے لیے مکالمے اور قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
علی ظفر نے کہا انتخابات کے بغیر انتظامیہ کوئی کام نہیں کر سکتی۔ بجٹ پاس نہیی ہو سکتا، انتظامی فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔ اسی لیے انتخابات بنیادی حقوق کا معاملہ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔
اٹارنی جنرل تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں۔ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ اس معاملے کو دوبارہ عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔ فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اسکا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عمل درآمد کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بنچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔
اہم معاملہ ہے بنچ اگر مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی ۔ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے بنچ اگر مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔ کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے۔ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے۔ آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے لوگوں کا سوچیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔
کوئی قانون الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے،چیف جسٹس
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے کرنا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن بغیر کسی وجہ کے انتخابات 90 روز سے آگے نہیں لے جا سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ملک میں آئین کی کوئی پرواہ نہیں کرتا یہ افسوسناک ہے۔ جیسے بھی گیا الیکشن 90 روز آگے چلا گیا ہے۔
علی ظفر نے کہا صرف فنڈز کی کمی کے باعث الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتے۔ امن و امان اور عملہ کی قلت بھی الیکشن ملتوی کرنے کا بہانہ نہیں۔ پہلے کوئی انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا انتخابات کی تاریخ دینے کا معاملہ حل ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل بھی ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن سارے عمل کو ختم کرکے انتخابات ملتوی کر سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن خود تاریخ کا اعلان نہیں کر سکتا: علی ظفر
چیف جسٹس نے کہا کیا الیکشن کمیشن خود انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔ اس پر علی ظفر نے کہا نہیں الیکشن کمیشن خود تاریخ کا اعلان نہیں کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 1988 اور 2008 میں انتخابات کیسے ملتوی ہوئے؟ جسٹس جمال منددوخیل نے کہا اگر الیکشن کمیشن تاریخ ہی نہ دے اور معذوری ظاہر کر دے تو پھر کیا ہو گا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا الیکشن کمیشن خود تاریخ نہیں دے سکتا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ شفاف انتخابات یقینی بنائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ادارے کا کام ہی الیکشن کروانا ہے وہ آئینی ذمہ داری ادا نہ کر سکتا ہو۔
کیا صدر مملکت کا 90 روز بعد الیکشن کی تاریخ دینا آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی قانون الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم الیکشن کمیشن کے بجائے اداروں سے پوچھ سکتے ہیں جو مدد نہیں کر رہے۔
علی ظفر نے کہا اگر ادارے یہ کہہ دیں کہ ہم آئین نہیں مانتے تو انارکی پیدا ہو گی۔ ہر ادارہ اور شہری آئین پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا صدر مملکت کا 90 روز بعد الیکشن کی تاریخ دینا بھی آئین کی خلاف ورزی نہیں؟
امن اومان اور مالی مسائل اکتوبر 2024 اور 2025 میں نہیں ہوں گے؟ جسٹس اعجازالاحسن
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا عدالت نے قانونی تحفظ دیا 90 روز بعد کم سے کم وقت کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ علی ظفر نے کہا سپریم کورٹ نے واضح کہا کہ 90 روز کے بعد کم سے کم تاخیر ہو۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اگر الیکشن کمیشن کو لگا کہ 30 اپریل کو انتخابات نہیں ہو سکتے تو چاہیے تھا عدالت آتے۔ عدالت تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتی۔
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا اتھارٹی تو واضح ہے یہ فیصلہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ انتخابات 6 ماہ 6 سال یا 60 سال کے لیے ملتوی کرنے ہیں؟ الیکشن کمیشن پورے انتخابات روکنے کے بجائے عدالت آئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اگر حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات سے انکار کر دیں تو کیا ہم زبردستی کر سکتے ہیں؟ میں نے پورے آئین کا جائزہ لیا اس سوال کا جواب نہیں ملا ۔اس لیے کہتا ہوں یہ معاملات پارلیمان میں حل ہونے چاہئیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا اگر یہ سارا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا جائے تو معاملہ لٹک جائے گا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے انتخابات کی تیاری ہو اور وزیر خزانہ کہہ دے پیسے نہیں ہیں۔
ایک مہینے میں 500 ارب اکٹھے ہوئے ہیں تو اتنے بڑے مسئلے کے لیے 20 ارب نہیں: جسٹس منیب اختر
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا وہ وجوہات بتائی جائیں جن پر انتخابات ملتوی ہوئے۔ کیا امن اومان اور مالی مسائل اکتوبر میں نہیں ہوں گے۔کیا یہ مسائل اکتوبر 2024 اور 2025 میں نہیں ہوں گے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن نے رقم مانگی ہی نہیں صرف اجلاس بلایا تھا ۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا پنجاب اور خیبر پختونخوا پر کتنا خرچ آئے گا۔ علی ظفر نے بتایا پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر 20 ارب روپے اخراجات آئیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا ایک مہینے میں 500 ارب اکٹھے ہوئے ہیں تو اتنے بڑے مسئلے کے لیے 20 ارب نہیں ہیں۔ علی ظفر نے کہا سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز کی قلت ہے الیکشن کے لیے رقم نہیں دے سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا سیکرٹری خزانہ نے کمال کر دیا کہتے ہیں کہ عام انتخابات کے لیے پیسے نہیں تو کیا پھر کوئی انتخاب نہیں ہوگا؟
الیکشن پر سارے وسائل خرچ ہو جائیں تو بھی الیکشن کروانے چاہئیں: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگر الیکشن پر سارے وسائل خرچ ہو جائیں تو بھی الیکشن کروانے چاہئیں۔ حکومت کو اپنے اخراجات کم کر کے الیکشن کروانے چاہئیں۔ ہمارا ملک مالی بحران کا شکار ہے، ہم اس بات سے انکاری نہیں۔ قوموں کی زندگی میں بحران آتے ہیں۔ ترکیہ میں بہت بڑا زلزلہ آیا اس کے باوجود متاثرہ علاقہ کے علاوہ باقی ملک میں انتخابات ہوئے۔
عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے: علی ظفر
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا بجٹ میں انتحابات کے لیے فنڈز مختص ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔
علی ظفر نے کہا گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022 میں انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں۔ فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتحابی عملہ موجود ہے۔ سیکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کر دیا گیا۔ کیا یہ ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ علی ظفر نے کہا یہ ایسی بھی وجہ نہیں ہے الیکشن نہ کروائے جائیں۔ کیا نگران حکومت نفری دینے سے انکار کرسکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اسکا تھا ہی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا۔
وکیل علی ظفر نے کہا سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا۔ جمال مندوخیل نے کہا ہائیکورٹ جانے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ علی ظفر نے کہا وقت کی قلت ہے مزید چارہ جوئی میں مزید وقت ضائع نہیں کر سکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے۔ علی ظفر نے کہا معاملہ دو صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ علی ظفر نے کہا عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہو گا سپریم کورٹ خود کیس سنے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کے خلاف خود کارروائی کر سکتا ہے۔ علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ ادارے عمل درآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ غلط کیسے دی۔ علی ظفر نے کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں؟ عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے۔ قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں
علی ظفر نے مزید کہا غیر آئنی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے۔ آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جہموریت ہے۔ جہموریت انتحابات سے ہی ہوتی ہے۔
سماعت میں دن سوا 2 بجے تک وقفہ
جسٹس منیب اختر نے کہا سیکشن 58 کا اختیار کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہو گا؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہوئے تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ گئے۔ عدالت عظمیٰ نے سماعت میں دن سوا دو بجے تک وقفہ کر دیا۔
آئی ایم ایف نے انتخابات کے انعقاد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی: اٹارنی جنرل
وقفے کے بعد انتخابات سے متعلق کیس کی دوبارہ سماعت۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصورعلی اعوان نے دلائل شروع کر دیئے۔ کہا الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے 3 بنیادی حالات کا سامنا ہے۔ تاریخ دینا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مدد اور سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا الیکشن کمیشن کا تاریخ دینے کا معاملہ الیکشن کمیشن کے وکیل پر چھوڑتا ہوں، وہ جو موقف اپنانا چاہیں اپنا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا فنڈز کی فراہمی اور سیکیورٹی کے لیے فوج کی فراہمی وفاقی حکومت کی ذمہ داریاں ہیں۔ آئی ایم ایف نے انتخابات کے انعقاد پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ آئی ایم ایف نے 70 ارب ڈالر جمع کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ کچھ مقاصد کا تعین کیا ہے تاکہ یہ اضافی رقم جمع کی جا سکے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا آپ اپنے اہداف میں 200 ارب کی رقم بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ سب اندازے پر ہوتی ہے۔ اگر ہدف زیادہ رکھ لیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا یہ رقم کب تک جمع ہو گی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ رقم جون 2023 تک جمع ہو جائے گی۔
کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے، فوج کا کام سیکیورٹی فراہم کرنا ہے: جسٹس منیب اختر
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے کہا تھا الگ الگ انتخاب کروانے کے لیے پیسے نہیں ایک ساتھ انتخاب کے لیے پیسے ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا میں نے کہا تھا یہ سیکرٹری خزانہ نے کہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا وزیر خزانہ کا بیان ہے کہ لیپ ٹاپ اسکیم کی لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل فواد چودھری نے لقمہ دیا حکومت نے ارکان قومی اسمبلی کو 70 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کیے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا چلیں جی 80 ارب روپے تو یہاں ہی جمع ہو گئے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا میں اس حوالے سے ریکارڈ چیک کر کے بتا سکتا ہوں۔ میرا دوسرا سوال آرمی کی فراہمی سے متعلق تھا۔ ملک میں جاری سیکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں امن او امن کی صورتحال بہتر ہو جائے گی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا امید ہے اکتوبر میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو فوج ایک ساتھ مل سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کیا اس وجہ سے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔ فوج کا کام سیکورٹی فراہم کرنا ہے۔
پیپلزپارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا: چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کی وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا ترقیاتی فنڈ والی بات شاید پانچ ماہ پرانی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جا سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے۔
وزرات دفاع نے کہا سیکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا شہداء اسی دھرتی کے سپوت ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی کیا کر سکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے۔ افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں۔ کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کا مسئلہ 90ء کی دہائی سے ہے۔ کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے۔ کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی۔ پیپلزپارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا1988 میں انتحابات اگست میں ہونے تھے۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا1988 میں الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔ 1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلاء پر کیا تھا۔
مردم شماری کے بعد 4 ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں: چیف جسٹس
جسٹس منیب اختر نے کہا کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیئے تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت میں ہی آتا ہے۔ اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی۔ کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی۔ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے کمیشن کو تیار رہنا چاہیئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ 4 ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ۔ الیکشن کمیشن وہ ہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم لکھی ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا، مردم شماری اب بھی جاری ہے۔ سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے۔ مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا مردم شماری کے بعد 4 ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا مردم شماری کے دوران الیکشن نہیں ہو سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں۔
آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں: جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے کہا اگر مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو کیا ہو گا؟ کیا نگران حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کر سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے۔ آپ پر بھروسہ کیسے کریں کہ نتائج تاخیر سے شائع نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا 2 صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے کیا الیکشن کی آئینی مدت آگے جا سکتی ہے۔ آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی
اٹارنی جنرل نے کہا مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی کے میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے۔ عوام کی نمائندگی میں شفافیت ہونی چاہیئے۔ پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔
گزشتہ روز 27 مارچ کی سماعت میں کیا ہوا تھا ؟
27 مارچ کی سماعت کے تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت عام انتخابات وقت پر ہونا لازم ہیں۔ بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد میں خامی، کمی یا ناکامی مفاد عامہ اور ووٹنگ کا بنیادی حق متاثر کرتی ہے۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی انتخابات کی تاریخ منسوخ کی۔ درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ درخواست گزار کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرکے آرٹیکل 254 کے پیچھے پناہ لی۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہےکہ عدالتی نظائر میں آرٹیکل 254 کسی عمل کا مقررہ وقت گزرنے کے بعد اس کو غیر مؤثر ہونے سے تحفظ دیتا ہے۔ آرٹیکل 254 مقررہ وقت پر ہونے والے عمل میں التوا کا تحفظ نہیں دیتا۔ درخواست گزار کے مطابق 8 اکتوبر تک انتخابات ملتوی کرنے کی کوئی آئینی پشت پناہی نہیں۔
عدالتی حکم کے مطابق سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے ہیں۔ الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے قانونی سوالات پر جواب دے۔
حکومتی اتحاد کا پنجاب، کے پی الیکشن ملتوی کیس میں فریق بننے کا فیصلہ
پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی سپریم کورٹ میں درخواست کے کیس میں حکومتی اتحاد نے فریق بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) فریق بننےکی درخواست دائر کریں گی۔ حکومتی اتحاد کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا موقف عدالت میں پیش کریں گی۔