علامہ محمد اسد، جن کا اصل نام لیوپولڈ ویس تھا، 2 جولائی 1900 کو آسٹریا کے شہر لیوو (موجودہ لفیف، یوکرین) میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے دوران عبرانی اور عربی زبانیں سیکھیں، بعد میں ویانا یونیورسٹی سے فلسفہ اور آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ لیوپولڈ ویس کی ابتدائی زندگی میں مغربی فلسفے کا گہرا اثر تھا، تاہم مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران وہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔
اسلام قبول کرنے کا سفر
1922 میں، لیوپولڈ پہلی بار فلسطین گئے جہاں انہوں نے عرب دنیا کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس دوران ان کی ملاقات مختلف علماء اور اسلامی اسکالروں سے ہوئی۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے لیوپولڈ نے اسلام کی سادگی، انصاف، اور روحانی پہلوؤں سے متاثر ہوکر 1926 میں اسلام قبول کر لیا۔ان کا نام محمد اسد رکھا گیا۔
سعودی عرب میں قیام اور شاہ عبد العزیز کے ساتھ تعلق
اسلام قبول کرنے کے بعد، محمد اسد نے کئی سال سعودی عرب میں گزارے جہاں وہ شاہ عبد العزیز کے ساتھ رہے۔ انہوں نے اسلامی اصولوں پر گہری تحقیق کی۔ اس دوران اسلامی معاشرت، عدالتی نظام اور عرب ثقافت کے بارے میں گہری معلومات حاصل کیں۔
علامہ اقبال کے ساتھ دوستی
محمد اسد 1932 میں برصغیر آئے جہاں ان کی ملاقات علامہ اقبال سے ہوئی۔ علامہ اقبال نے انہیں اسلام کی فلسفیانہ اور فکری بنیادوں پر مزید غور کرنے کی ترغیب دی۔ محمد اسد نے اس دوستی کو اپنی زندگی میں ایک اہم موڑ قرار دیا، جو ان کے اسلامی فکر کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوئی۔
تصانیف اور فکری خدمات
علامہ اسد نے اپنی زندگی میں کئی اہم کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی مشہور کتابیں ’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘ اور ’دی میسیج آف دی قرآن‘ ہیں۔ ’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘ میں انہوں نے مغربی تہذیب کے چیلنجز کا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی۔ ’دی میسیج آف دی قرآن‘ ان کی تفسیر ہے جس میں انہوں نے قرآن کی آیات کی تفسیر جدید دور کے مسائل کے تناظر میں کی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد کا کردار
پاکستان کے قیام کے بعد، محمد اسد نے حکومت پاکستان میں مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 1947 میں وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر آف اسلامک ری کنسٹرکشن کے طور پر تعینات کیا گیا۔ انہوں نے اسلامی قانون سازی کے لیے رہنمائی فراہم کی اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسلامی نظریات کے نفاذ کے لیے کام کیا۔
پنجاب یونیورسٹی میں کردار
محمد اسد نے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی فلسفہ کے لیکچرار کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کی تعلیمات نے طلبہ کو اسلامی نظریہ حیات کی گہری تفہیم دی۔
پہلا پاکستانی پاسپورٹ اور مشرق وسطیٰ كا دوره
علامہ اسد کو 1952 میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پہلا پاکستانی پاسپورٹ دیا۔ یہ پاسپورٹ انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل نمائندے کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے دیا گیا تھا، اس سے بھی پہلے در اصل پاسپورٹ کا معاملہ اس وقت زیر بحث آیا جب پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے انہیں مشرق وسطیٰ کے اہم سفر پر روانہ کیا، اس بات کو علامہ اسد نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں جو کہ اردو میں (محمد اسد بندہ صحرائی) یوں لکھا ہے:
“چند روز بعد وزیر اعظم نے تجویز کیا کہ مجھے جتنی جلدی ممکن ہو سکے، مشرق وسطیٰ کا سرکاری دورہ کرنا چاہیے اور مسلمان ممالک کی مشترکہ تنظیم کے بارے میں ہر ملک کے عمل کا الگ جائزہ لینا چاہیے۔ یہ تجویز سن کر ميرا چہرہ خوشی سے تمتا اٹھا۔ مجھے یاد نہیں زندگی میں مجھے کبھی اتنی خوشی نصیب ہوئی ہو۔
سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ پاسپورٹ افسر کو فوراً پاسپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی۔ اس نے پوچھا ’یہ وضاحت فرمائیے کہ اس میں آپ کی کون سی قومیت کا اندراج ہو گا؟
میں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا ’پاکستانی، اور کون سی؟‘
’لیکن سر! ابھی تک پاکستانی قومیت نام کی کوئی چیز معرض وجود میں نہیں آئی۔ شہریت کا ایک بل قومی اسمبلی میں زیر بحث ہے اور اس کے منظور ہونے میں مہینوں گزر جائیں گے۔ اس اثناء میں برطانیہ سے ایک غیر رسمی معاملہ طے پایا ہے، جس کے مطابق پرانے پاسپورٹ پر ‘برطانوی شہری’ لکھنے کا اختیار دیا گیا ہے۔‘
میں نے کہا ’یہ کیا حماقت ہے۔ میں کبھی برطانوی شہری نہیں رہا اور اب بھی مجھے اس شہریت کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے پاسپورٹ پر لکھیے پاکستانی شہری۔ ‘
’میں یہ نہیں کر سکتا۔ یہ غیر قانونی بات ہے۔ کیا میں آپ کے پاسپورٹ پر آسٹرین شہریت لکھ سکتا ہوں؟ ‘ میں نے کہا ’ یہ تو اور زیادہ احمقانہ حرکت ہو گی۔ میں حکومت پاکستان کے سرکاری نمائندے کی حیثیت سے اس دورے پر جا رہا ہوں۔ اگر میرے پاس کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ ہو گا تو دیکھنے والا کیا سمجھے گا؟‘
بہرحال یہ مسئلہ کئی روز تک زیر بحث رہا اور میں بے سر وپا باتیں سن سن کر تنگ آگیا۔ بالآخر میں نے وزیر اعظم کے ذاتی معاون کو فون کیا اور ان سے عرض کیا ’براہ مہربانی وزیراعظم سے میری فوری ملاقات کرا دیجیے۔‘
کچھ دیر بعد میں لیاقت علی خان کے دفتر پہنچا اور انہیں اپنی مشکل سے مطلع کیا۔
انہوں نے اپنے سیکریٹری سے کہا کہ فوراً پاسپورٹ آفیسر کو بلائیں۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا، وزیراعظم نے انہیں جلد پاسپورٹ بنانے کا حکم دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس پر ’پاکستانی شہری‘ کی مہر ثبت کرے۔ اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر پاکستانی شہری لکھا گیا تھا۔
حوالہ جات
- Weiss, Leopold. The Road to Mecca. Faber and Faber, 1954.
- Asad, Muhammad. Islam at the Crossroads. Dar Al Andalus, 1934.
- Akhtar, Shabbir. A Faith for All Seasons: Islam and Western Modernity. Scm Press, 1990.
- Asad, Muhammad. The Message of The Quran. Dar Al Andalus, 1980.
- Asad, Muhammad. Home-coming of the Heart. 1967.
- Asad, Muhammad. Islamic Philosophy and Occidental Thought. Dar Al Andalus, 1949.