چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منصور علی شاہ کے خط کا جواب دے دیا

جمعرات 26 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دے دیا، خط میں منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق منصور علی شاہ کے لکھے گئے خط کے جواب میں چیف جسٹس نے بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو ججز کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا تاہم انہوں نے شامل ہونے سے معذرت کی۔

یہ بھی پڑھیں ادارے صرف گفت و شنید اور رابطے کے ذریعے ترقی کرسکتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ

خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو ججز کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جسٹس منصور علی شاہ کو لکھے گئے خط کے مزید مندرجات سامنے آگئے، جس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کو ججز کمیٹی اجلاس میں شریک ہونے کی دعوت دے دی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آپ کی جانب سے مجھ پر ججز کے انتخاب میں غیر جمہوری اور ون مین شو جیسا فضول الزام لگایا گیا، آپ کی باتیں حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتیں۔

چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے مجھے اور جسٹس امین الدین کو آپ کا لکھا خط اجلاس کے دوران دیا، تاہم آپ کا خط میرے پاس آنے سے پہلے صحافیوں تک پہنچ گیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ کے فیصلے میں پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کیا، چیف جسٹس کے بینچز کے تشکیل کے اختیارات کو بعض کی جانب سے آئینی مقدمات میں غلط استعمال کیا گیا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ شاہ صاحب! قانون میں مجھے کمیٹی کے جج نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، معقول وجوہات کی بنا پر اپنا اختیار استعمال کیا۔

چیف جسٹس نے لکھا کہ ایسا نہیں لگتا کہ آپ تمام ججز کو ایک جیسا تصور کرتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ معاملے کو زیر غور لاتے ہوئے عوام کے لیے کمیٹی میں دوبارہ شامل ہوں گے، اور اپنی شمولیت سے سپریم کورٹ کی بلا تعطل کارروائی کو یقینی بنائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی جانب سے رجسٹرار اور سپریم کورٹ ججز کو خط کی کاپی بھجوائی گئی، اب آپ کے خط سے پیدا ہونے والے غلط بیانیے کے خاتمے کے لیے میرے پاس بھی سب کو نقول بھجوانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ کے لیے جو کچھ کیا وہ بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن عوام میں غلط بیانیے کو ختم کرنے کے لیے آپ نے ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سینیئر ترین جج منصور علی شاہ نے 23 ستمبر کو ججز کمیٹی کی تشکیل نو پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے سابقہ کمیٹی کی بحالی تک میٹنگ میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرڈیننس پر فل کورٹ میٹنگ بھی بلائی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس منصور علی شاہ کے ججز کمیٹی کی تشکیل نو پر اعتراضات، اجلاس میں بیٹھنے سے بھی انکار

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کے سیکریٹری کے نام لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کے بعد بھی سابقہ کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی، آرڈیننس کمیٹی کی تشکیل نو لازمی قرار نہیں دیتا، آرڈیننس کے چند گھنٹے بعد ہی کمیٹی کی تشکیل نو کردی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سیکریٹری کمیٹی کو لکھا کہ برائے مہربانی اس خط کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت تشکیل شدہ کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔ براہ کرم اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس خط کے مندرجات 23 ستمبر 2024 کو تشکیل شدہ کمیٹی کے منٹس میں درج ہوں۔

1 by Iqbal Anjum on Scribd

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ترمیمی آرڈیننس کے اجرا کے بعد جلد بازی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کے حوالے سے یہ نشاندہی کی جاتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد بنانے کا ابتدائی اور بنیادی اختیار دیتا ہے۔

جبکہ مقننہ کو اس موضوع پر قانون بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کے قواعد سازی کے اختیار پر روک لگانے کی طرح ہے جسے شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے جب عوامی مفاد میں ایسا کرنا ضروری ہواور یہ کہ اس ایکٹ نے انصاف تک رسائی کو آسان بنایا ہے، شفافیت پیدا کی ہے، بنیادی حقوق کے حصول کو زیادہ مؤثر بنایا ہے اور سپریم کورٹ اس حوالے سے زیادہ آزاد ہے۔

مزید پڑھیں:پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد شروع، ججز کمیٹی میں جسٹس منیب کی جگہ جسٹس امین الدین شامل

انہوں نے لکھا کہ ’دور اندیشی اور دانشمندی کے ساتھ اس عدالت کی آزادی پر اس ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ کی جانب سے مستقبل میں کسی بھی مداخلت یا تجاویز کے دروازے بند کر دیے ہیں، اگر ایسی کوئی ترمیم کی جاتی ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مقصد عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانا یا اس میں خلل ڈالنا یا انصاف کے منصفانہ اور آزادانہ نظام میں خلل ڈالنا ہے۔ یہاں تک انصاف تک رسائی میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے، یہ عدالت آئین کی نگہبان ہونے کے ناطے اس سے نمٹنے کے لیے موجود ہوگی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ کمیٹی کی تشکیل کے طریقہ کار میں ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم کے آئینی جواز اور کمیٹی کی تشکیل کا تعین کرنے کے لیے چیف جسٹس کو آزادانہ اور من مانی صوابدید تفویض کرنے کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔

مزید برآں ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے عمل کی آئینی شرط کے لیے عدالتی فیصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کی کوئی فوری وضاحت نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے مناسب ترمیمی قانون سازی کے بجائے اس کے نفاذ کی ضرورت پڑی۔

یہ بھی پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ: پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواست پر اعتراض ختم

ترمیمی آرڈیننس کی آئینی حیثیت کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پر تعصب کے بغیر، یہ بھی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ ترمیمی آرڈیننس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججوں پر مشتمل موجودہ کمیٹی کی ضروری تشکیل نو کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔

 لہٰذا ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترمیم کے بعد بھی سابقہ کمیٹی برقرار رہ سکتی تھی۔ تاہم ترمیمی آرڈیننس کے اجرا کے چند گھنٹوں کے اندر ہی یہ اطلاع دی گئی کہ کمیٹی کی تشکیل نو کر دی گئی ہے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ دوسرے سینیئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو کمیٹی کی تشکیل سے کیوں ہٹایا گیا، جو ایکٹ کی دفعہ 2 (1) کی بنیاد پر 11.3.2024 کو کمیٹی کے رکن بن گئے تھے اور تب سے تمام اجلاسوں میں شرکت بھی کر رہے تھے اور اس دن کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی دستیاب تھے۔

یہ بھی پڑھیں مسلم لیگ ن کا لایا ہوا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ خود اس کے لیے کیسے نقصاندہ ثابت ہوا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ اگلے سینیئر ترین جج کو کیوں نظر انداز کیا گیا اور اس کے بجائے، چوتھے سینیئر ترین جج کو کمیٹی کا رکن نامزد کیا گیا۔ ون مین شو کی اس طرح کے کام اور غیر جمہوری نمائش کی ایکٹ حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ایسا کرنا سپریم کورٹ کے مقدس ہال کے اندر اصول انصاف، شفافیت کو یقینی بنانے اور جمہوری حکمرانی اور عدالتی انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ مساوی عدلیہ کو اپنانا جو حقیقی معنوں میں عوامی مفاد کی خدمت کرے ضروری ہے۔

کسی ادارے کی اہلیت یا انتظامی فیصلوں میں اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ عدالت کا کام ‘ون مین شو’ کے فرسودہ تصور سے بالاتر ہو، جو زیادہ جامع، شفافیت کی عکاسی کرتا ہو۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے ترمیمی آرڈیننس کے اجراء کے چند گھنٹوں کے اندر ہی عجلت میں تشکیل دی گئی کمیٹی بغیر کسی قانونی جواز اور اپنے ساتھی ججوں کی مشاورت کے بغیر ان اصولوں اور عدالت کے فل کورٹ بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔

مزید پڑھیں:جسٹس منصور کی ججز کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت، 63 اے نظرثانی اور آڈیو لیک کمیشن کیس سماعت کے لیے مقرر

 یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ چیف جسٹس اس قانون کے ذریعے متعارف کرائی گئی شفافیت پر اس قدر پختہ یقین رکھتے تھے کہ ایک سینیئر جج کی حیثیت سے انہوں نے خود کو کسی بھی بینچ میں بیٹھنے سے الگ کر لیا تھا اور کئی مہینوں تک چیمبر میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔

معزز چیف جسٹس کے لیے اس ایکٹ کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے کیونکہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عدالت کی طرف سے سماعت کے لیے اٹھایا گیا یہ پہلا اور واحد کیس تھا۔

آزادی، شفافیت اور ہم آہنگی کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس راجا عامر کیس میں عدالت کے مشہور فیصلے کی روشنی میں ترمیمی آرڈیننس کے اجرا پر فوری تشویش کا اظہار کریں اور اس معاملے پر غور و خوض کے لیے اس عدالت کے تمام ججوں کا فل کورٹ اجلاس طلب کریں، بجائے اس کے کہ جلد بازی میں اس پر رضامندی ظاہر کریں اور بغیر کسی قانونی جواز اور وجوہات کے خاموشی سے موجودہ کمیٹی کی تشکیل نو کریں۔

یہ بھی پڑھیں:سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے لیے آئینی تقاضوں پر پورا نہیں اترتی، جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ مجھے ڈر ہے کہ تشکیل شدہ کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی کوئی بھی کارروائی یا فیصلے اس عدالت کے فل کورٹ بینچ کے فیصلے کے خلاف جائیں گے اور اس سے ملک میں انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کی سالمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ذریعے تشکیل دیے گئے بینچوں کے فیصلوں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔

جسٹس منصور نے لکھا کہ میرا پختہ خیال ہے کہ جب تک ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے کی جانے والی ترامیم کے آئینی جواز کا تعین اس عدالت کے فل کورٹ بینچ کی جانب سے نہیں کیا جاتا، یا اس عدالت کے جج انتظامی طور پر فل کورٹ کے اجلاس میں ترامیم پر عمل کرنے کا عزم نہیں کرتے، یا سابقہ کمیٹی کو معزز چیف جسٹس کی جانب سے اس عدالت کے دوسرے سینیئر ترین جج کو نامزد کرکے اور ان میں شامل کرکے بحال نہیں کیا جاتا تب تک احترام کے ساتھ، افسوس ہے کہ میں کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کر سکتا۔

اس خط کے جواب میں وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا ردعمل غیرقانونی ہے۔

انہوں کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق صدارتی آرڈیننس جاری ہوا ہے، اگر پارلیمنٹ اسے مسترد کرتی ہے تو ختم ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈیننس کمیٹی کی تشکیل نو پر اعتراضات اٹھا دیے، اجلاس میں بیٹھنے سے بھی انکار

انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ جو کہے گی وہ آئین ہوگا۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے بنانے کا نہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس ملک میں سپریم کورٹ نے خود بھی بہت کچھ غیرآئینی اور غیرقانونی کیا، یہاں بے گناہ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور پھر اس بات کو تسلیم بھی کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp