چیف جسٹس، جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے جمعرات آرٹیکل 63 اے سے متعلق اچانک فیصلہ سنا کر بشمول کورٹ رپورٹرز سب کو حیران کر دیا۔
گزشتہ سماعت پر بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جب عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے استدعا کی کہ مروجہ طریقہ کار کے تحت ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو جواب جمع کرانے کے لیے ایک معقول وقت دیا جاتا ہے تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب یہ وہ عدالت نہیں جس میں 40، 50 سماعتیں ہوتی ہوں اب ہم دوسری تیسری سماعت پر فیصلہ کر دیتے ہیں۔ اس بات سے ان کا اشارہ غالباً سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں نیب ترامیم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کی طرف تھا جس نے اس مقدمے کی کم و بیش 52 سماعتیں کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل: سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر اکثریتی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا
موجودہ چیف جسٹس کی جانب سے جلد فیصلوں کا تسلسل آرٹیکل 63 اے کے مقدمے میں بھی نظر آیا جب پیر کے روز نظر ثانی سماعت شروع ہوئی اور جمعرات کو چوتھی سماعت پر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے نظر ثانی اپیلیں منظور کر لیں اور 63 اے پر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کا 17 مئی 2022 کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس کے عمومی فیصلے
17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے عام نوعیت کے کئی فیصلے دیے جن میں زیادہ کا تعلق خواتین کے حق وراثت سے تھا۔ کئی ایسے مقدمات میں انہوں نے بیوہ اور یتیم خواتین کو جائیداد میں حصہ نہ دینے اور مقدمے بازی کو طول دینے پر ان کے رشتے داروں کو جرمانے بھی کیے۔ تاہم یہ مقدمات چونکہ اس نوعیت کے نہیں ہوتے جو مشہور ہو سکیں کیوں کہ مشہور ہونے والے زیادہ تر فیصلے سیاسی جماعتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
چیف جسٹس اور پی ٹی آئی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے منصب سنبھالنے سے اب تک پاکستان تحریک انصاف ان کی سربراہی میں مقدمات کے ہونے والے بیشتر فیصلوں سے ناخوش نظر آئی خواہ وہ نیب ترامیم کیس ہو یا آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ۔ لیکن اس ناراضی میں زیادہ شدت 13 جنوری 2024 کے اس فیصلے سے آئی جس کی رو سے پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم کیا گیا۔ عمران خان ایسی کئی درخواستیں دائر کر چکے ہیں کہ ان سے متعلق تمام مقدمات ایسے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے نہ مقرر کیے جائیں جن کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے ہوں۔ اسی طرح سے عمران خان کے وکلا بھی کئی مقدمات میں چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
مخصوص نشستوں کا کیس
12 جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والی 13 رکنی فل کورٹ نے ایک مختصر 8،5 کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے قرار دیا کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس جمع کروائے تھے ان کا تعلق پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہے اور ان 39 اراکین کو آزاد امیدوار خیال نہیں کیا جائے گا جبکہ 41 امیدوار 15 روز کے اندر پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس کی ان کے علاوہ 7 دیگر جج صاحبان نے حمایت کی اور چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کا حصہ تھے۔ اس فیصلے پر حکومت کی نظر ثانی اپیلیں تاحال زیرالتوا ہیں لیکن وفاق کی اتحادی حکومت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سے اس فیصلے کو عملاً غیر مؤثر کر چکی ہے۔
نیب ترامیم کیس
اس سے قبل 6 ستمبر 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو منظور کر لیا۔ اس سے پہلے سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو یہ ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں جس پر وفاقی حکومت نے بعد میں نظر ثانی اپیلیں دائر کی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس
9 جولائی 2024 کو چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 9 رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر تفصیلی فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم کے مقدمے میں آئینی و قانونی ضابطے پورے نہیں کیے گئے نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا اور مارشل لا ادوار میں عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پاتیں۔
بلے کا انتخابی نشان
8 فروری عام انتخابات سے قبل 13 جنوری 2024 کو چیف جسٹس سربراہی میں سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ نے 12،13 گھنٹے کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان بلے سے اس بنا پر محروم کر دیا تھا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کرانے کا کوئی ثبوت عدالت میں جمع نہیں کرا سکی تھی۔ طویل سماعت کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد مواقع فراہم کیے گئے کہ وہ انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے کوئی ثبوت عدالت میں جمع کرائے لیکن وہ ایسا نہ کر سکی جس کے بعد مذکورہ فیصلہ سنا دیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ اور خاص طور پر چیف جسٹس کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مبارک ثانی کیس
22 اگست 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے توہین مذہب کے الزام میں انڈر ٹرائل ملزم مبارک ثانی کے فیصلے میں ترمیم کی۔ 6 فروری کو مبارک ثانی کی درخواست ضمانت کی فیصلے کی وجہ سے ملک کی مذہبی جماعتوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے خلاف متعدد احتجاج بھی ہوئے۔ اس مقدمے کے نظرثانی فیصلے کے خلاف بھی بہت سے احتجاج ہوئے یہاں تک کہ 22 اگست کو سپریم کورٹ نے اپنے نظر ثانی شدہ فیصلے میں بھی ترمیم کر دی۔
عام انتخابات کا انعقاد
10 اپریل 2022 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قبل از وقت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کا انعقاد خاصا مشکل نظر آتا تھا۔ یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کے اپریل 2023 اور بعد ازاں 14 مئی 2023 کے احکامات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کو بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس نہ تو مالی وسائل ہیں اور نہ ہی سیکورٹی کے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایسا لگ رہا ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں انتخابات نہ ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
لیکن چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے الیکشن کمیشن کو احکامات جاری کیے کہ ہر صورت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر 12 فروری جبکہ صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کے بعد 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اکثر جمہوریت کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیتے ہیں کہ ہم نے تو 12 دنوں میں انتخابات کرائے تھے۔ عمران خان کی نیب ترامیم مقدمے میں آن لائن پیشی کے موقع پر بھی چیف جسٹس نے ان کے سامنے اس بات کا ذکر کیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ
12 اکتوبر 2023 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والی فل کورٹ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو منظور کر لیا۔ جبکہ اس سے قبل جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس ایکٹ پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کیخلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ
اس ایکٹ میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ اہم چیز یہ تھی کہ ازخود اختیارات اور بینچوں کی تشکیل سے متعلق معاملات کو چیف جسٹس کی بجائے 3 رکنی کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا۔
فوجی عدالتوں کا مقدمہ
سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لئے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ تشکیل دیا جس نے 12 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کو معطل کرتے ہوئے 9 مئی کے سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اس شرط پر اجازت دی کہ ان مقدمات کے حتمی فیصلے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن اس مقدمے کا اب تک حتمی طور پر فیصلہ نہیں ہو پایا۔