کہتے ہیں کہ اللہ جب کسی شخص کو کسی محرومی سے دوچار کرتا ہے تو بدلے میں اسے دوسری کئی صلاحیتوں سے نواز دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ کوئٹہ کے 17 رہائشی علی گوہر کے ساتھ ہوا ہے۔ ہاتھوں سے محروم علی گوہر کے فن پارے اس کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
بچپن ہی سے فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والے ہونہار علی گوہر گزشتہ چار سال سے فنِ مصوری سے منسلک ہیں۔ نوجوان مصور کو اسکیچنگ اور آبسٹرکٹ آرٹ میں خاص مہارت ہے۔ علی گوہر مصوری کے علاوہ گزشتہ ایک برس سے گرافک ڈیزائننگ اور ویڈیو ایڈیٹنگ بھی کر رہے ہیں۔ سونے پر سہاگا یہ کہ علی گوہر اردو کے اچھے لکھاری بھی ہیں اور افسانہ نگاری اور غزل سے بھی شغف رکھتے ہیں۔
علی گوہر صوبے میں ہونے والے مصوری کے مختلف مقابلوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں، جس کے اعتراف میں انہیں کئی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔
علی گوہر نے اپنے ہاتھ کیسے کھوئے ؟
علی گوہر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہیں 9 سال کی عمر میں پتنگ بازی کا بہت شوق تھا ایسے ہی ایک دن ہلکی بارش ہو رہی تھی اور میں پنگ بازی میں مشغول تھا کہ اسی دوران میری پتنگ بجلی کی تاروں میں اٹک گئی، ایسے میں لوہے کے ایک ڈنڈے سے پتنگ چھوڑنے کی کوشش کے دوران بجلی کا ایک زور دار جھٹکا لگا جس سے میرے ہاتھ متاثر ہوگئے۔ اس کے بعد مجھے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال بولان میڈیکل کمپلیکس لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں کی غفلت سے میرے دونوں ہاتھ ضائع ہو گئے‘۔
علی گوہر کا عزم
علی گوہر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اللہ اپنے بندے کو دیکھ کر آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ اللہ نے مجھے اس آزمائش میں شاید اس لیے ڈالا کیونکہ میں کبھی ہار نہیں مانتا۔ میں جب دونوں ہاتھوں سے محروم ہوا تو میں نے ہار نہیں مانی‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اللہ جب آپ سے کوئی ایک چیز لے لیتا ہے تو اس کے بدلے میں کوئی صلاحیت دے بھی دیتا ہے۔ حادثے کے بعد میں نے اپنے پیروں کا استعمال شروع کیا اور اب میں اپنے پیروں سے ہر کام سر انجام دے سکتا ہوں‘۔