پاکستان تحریک انصاف کے سابق امیدوار برائے پارٹی چیئرمین شپ شیر افضل مروت نے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں بڑی دلچسپ بات کہی کہ انہیں 3 لاکھ لوگ ڈی چوک پر دے دیے جائیں گے تو اسٹیبلشمنٹ خود مذاکرات پر مجبور ہوجائے گی۔
ہمارے ہاں مخالف کوئی بڑی بات کہنے کی کوشش کرے تو یار دوست اپنے مخالف کو کم زور ثابت کرنے کے لیے کچھ یوں طعنہ دیتے ہیں کہ اسے گھر میں دوسری بار مانگنے پر دال نہیں ملتی، یہ بڑی بات کرنے چلا ہے۔ اس طعنہ کا انطباق جناب شیر افضل مروت پر کرنے سے بہت ڈر لگتا ہے۔
وہ ان دو شریف آدمیوں میں سے ایک ہیں جن کے درمیان عمران خان کے نااہل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی چیئرمینی حاصل کرنے کی جنگ بپا ہوئی تھی۔
کپتان نے اپنا دستِ شفقت دوسرے شریف جناب بیرسٹر گوہر خان کے سر پر رکھ دیا۔ اس انتخاب کے لیے شاید بیرسٹر گوہر خان کی خوبی یہ تھی کہ وہ میلہ لوٹنے کی صلاحیت سے محروم تھے جبکہ شیر افضل مروت اپنے جذباتی خطابات کی بدولت ایک عرصہ تک کئی میلے لوٹ چکے تھے۔ اب انسان ان دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ہی لوٹ سکتا ہے، میلہ یا پارٹی میں اعلیٰ منصب۔
چنانچہ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سابق امیدوار برائے پارٹی چیئرمین شپ شیر افضل مروت کی پارٹی میں حیثیت اس قدر کمزور ہوگئی کہ پاکستان کے سب سے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان اڈیالہ جیل کے مرکزی گیٹ کے سامنے بازو اور ٹانگیں پھیلا کر، شیر افضل کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ شیر افضل مروت جیل میں خان صاحب کے پاس جانے کی ہزار کوشش کرتے لیکن عمر ایوب انہیں کوئی راستہ دینے کو تیار ہی نہ ہوتے تھے۔ اس صورت حال نے مروت صاحب کو بہت مایوس کیا۔ مجھے ڈر لگا کہ وہ ایک بار پھر ڈپریشن کے شدید قسم کے مریض نہ بن جائیں۔ عرصہ پہلے وہ اس مرض میں مبتلا رہ چکے ہیں۔
بہرحال شیر افضل اب ایک بار پھر سرگرم ہوچکے ہیں۔ سبب اس کا محض یہ ہے کہ انھیں جناب عمران خان سے ملاقات کا موقع مل چکا ہے اور پیر صاحب آف بنی گالہ شریف نے مروت صاحب پر کوئی دَم کردیا ہے۔ چنانچہ اب شیر افضل صاحب کی طرف سے بیانات کا سلسلہ تیز ہورہا ہے۔ وہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اینکرپرسن کے سوالات کے دلچسپ جوابات دے رہے ہوتے ہیں۔
اب ذرا ایک بار پھر شیر افضل مروت کا مذکورہ بالا بیان پیش نظر رکھیں کہ انہیں 3 لاکھ لوگ ڈی چوک پر دے دیے جائیں گے تو اسٹیبلشمنٹ خود مذاکرات پر مجبور ہوجائے گی۔
مسئلہ یہ ہے کہ جو پارٹی انھیں اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تھی، وہ انھیں کیسے 3 لاکھ افراد دے سکتی ہے۔ اگر تین لاکھ لوگ میسر دستیاب ہوں تو عمر ایوب جیسے رہنما اپنی ’گُڈی‘ کیوں نہ چڑھائیں۔ اگر تین لاکھ لوگ دستیاب ہوتے تو آج پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کچھ اور ہی ہوتا! ہر جگہ عمران خان ہی کا ڈنکا بج رہا ہوتا اور وہ جیل سے باہر ہوتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تین لاکھ لوگ کہیں میسر نہیں ہیں۔
ابھی یہ سطور لکھ ہی رہا تھا کہ جناب شیر افضل مروت نے ایک اور تہلکہ خیز بیان جاری کردیا۔ محترمہ عاصمہ شیرازی نے انہیں اپنے پروگرام میں بطور مہمان بلایا اور ان سے عمران خان کی رہائی کے امکانات کی بابت پوچھ لیا۔ افضل ترین شیر نے ایک بلند مرتبت تجزیہ نگار کی طرح کندھے اچکاتے ہوئے فرمایا کہ انہیں تو عمران خان کی رہائی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں۔
ان کا یہ فرمان اس وقت سامنے آیا جب پوری پی ٹی آئی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پاکستانی قوم کو باور کروا رہی تھی کہ نومبر میں عمران خان بھی رہا ہو رہے ہیں کیونکہ ’ساڈی گل ہوگئی اے۔‘
اسی طرح جناب مروت نے ایک اور انکشاف فرمایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ان کے پاس چالیس ووٹ تھے، یہ ووٹ انہوں نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کو اس لیے نہیں دیے کہ کوئی ان سے یہ ووٹ مانگنے ہی نہیں آیا تھا۔
اس پر پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ چیخ اٹھے کہ شیر افضل مروت کو آخری موقع دے رہے ہیں، باز نہ آئے تو کارروائی ہوگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق امیدوار برائے پارٹی چیئرمین شپ باز آئیں گے؟
میرا خیال ہے کہ وہ اپنی ہٹ کے پکے ہیں، وہ حقیقی معنوں میں عجب آزاد مرد ہیں۔ وہ عمران خان کے ساتھ کامل اخلاص کے ساتھ جڑے رہنے والے لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ایسے لوگ چند ایک ہی ہیں، باقی سب مفادات کے بندے۔
میں ایک عرصہ تک حیران رہا ہوں کہ شیر افضل مروت عمران خان کے دیگر نائبین مثلاً عمر ایوب وغیرھم کے برے سلوک کے باوجود پی ٹی آئی کے کمبل سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟ مارگلہ کے گہرے جنگل میں ایک قدیم برگد تلے بیٹھے پراسرار درویش نے کہا کہ شیر افضل مروت بے لوث بھی ہیں اور بے باک بھی۔ تاہم انتہائی خطرناک حد تک سادہ لوح بھی کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ پاکستانی سیاست میں ان جیسے بے لوث لوگ ایندھن کے طور پر ہی استعمال ہوتے ہیں، اس کے سوا ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
پر اسرار درویش نے کہا کہ اب بھابھی ہوں گی، نندیں ہوں گی اور ہوگی پی ٹی آئی!
رہی بات عمران خان کی، شیر افضل مروت درست کہتے ہیں کہ ان کی رہائی کے امکانات دور، دور تک نظر نہیں آتے۔ وہ صرف ایک ہی صورت میں رہا ہوسکتے ہیں، جب وہ اودھم مچائے بغیر سیاست کرنے کا وعدہ کرلیں۔ تاہم خان صاحب کوشش کے باوجود اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں قابو میں رکھا ہوا ہے۔