پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان آج ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کے لیے مذاکرات کا تیسرا دور ہوگا۔ سپریم کورٹ کے ہدایات کے بعد دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کے دو ادوار ہوچکے ہیں تاہم مذاکرات کا تیسرا دور حتمی قرار دیا جارہا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اگر حکومت 14 مئی تک قومی اسمبلی تحلیل کرتی ہے تو ملک میں بیک وقت انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے وائس چئیرمین نے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ منگل کو حکومت پی ٹی آئی کے تجاویز پر مثبت جواب دے گی۔
مذاکرات میں اب تک کیا طے پایا؟
پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز 27 فروری کو ہوا تھا دونوں فریقین کے درمیان اب تک لچک کا مظاہرہ کیا گیا ہے تاہم حتمی طور پر دونوں فریقین کو اپنے مطالبات کے ضمن میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
حکومت ملک میں بیک وقت انتخابات کی حامی ہے جس پر تحریک انصاف نے بھی مشروط آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ مانگی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کی تاریخ دینے سے معذرت کر لی گئی ہے۔
آج مذاکرات میں کیا پیش رفت ہوگی؟
حکومت کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ اسمبلی بجٹ منظور ہونے کے بعد تحلیل کی جائے اور ستمبر میں ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کروائے جائیں۔
اس تجویز کے جواب میں تحریک انصاف نے تجویز دی ہے کہ حکومت بجٹ پیش کرنے کے بجائے نئی حکومت کو بجٹ پیش کرنے کا موقع دے، تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ عملہ کی سطح پر معاہدہ نہ ہونے کے باعث قبل از وقت بجٹ پیش کرنے کی بھی تجویز بھی زیر غور ہے۔
دوسری جانب ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کے لیے تحریک انصاف نے آئین میں ترمیم کی تجویز سامنے رکھی ہے جسے ممکن بنانے کے لیے پی ٹی آئی ارکان کی اسمبلی میں واپسی ناگزیر ہوگی۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن کے ذریعہ اسپیکر قومی اسمبلی کو استعفے واپس لینے کی درخواست کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان یہ بات بھی طے ہوئی تھی کہ مذاکرات کے حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کے ارکان میڈیا سے گفتگو میں محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ بیان جاری نہیں کریں گے۔
مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں کیا ہوگا؟
اب تک دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں اس وقت بے یقینی کی کیفیت در آئی جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی پیشی کے موقع پر کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے حکومتی ٹیم کے سامنے احتجاج کیا۔ حکومتی ٹیم نے اس احتجاج کو تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر کارکنان کی رہائی میں معاونت کی۔
مذاکرات کو دوسرا بڑا دھچکا اس وقت پہنچا جب لاہور میں تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر رات گئے چھاپہ مار کر متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
تحریک انصاف نے پنجاب پولیس اور لاہور اینٹی کرپشن یونٹ کی اس مشترکہ کارروائی پر شدید احتجاج کیا جس پر حکومتی ٹیم کے سربراہ اسحاق ڈار نے معاملے کو فوری طور پر ٹھنڈا کرتے ہوئے تحریک انصاف قیادت سے رابطہ کیا اور واقعہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔
اسحاق ڈار کی جانب سے یقین دہانی پر تحریک انصاف نے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے تاہم منگل کو مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا جہاں معاملہ ایک بار پھر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے پاس چلا جائے گا۔