یہ دنیا الفاظ کی بازی گری سے آگے نکل چکی ہے۔ اب اصل وقار اُس سکوت میں ہے جو بولنے سے پہلے لمحہ بھر ٹھہرتا ہے۔ یہی وقار ہم نے دیکھا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی آنکھوں میں، اُن کے لہجے میں، اُن کی باڈی لینگوئج میں دیکھا، جب پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر تھی، جب لفظ تلوار بن چکے تھے اور بیانات گولہ بارود بن کر برسے جا رہے تھے، تب یہ شخص خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔ نہ اشتعال، نہ نمائشی دبدبہ۔ بس ذمہ داری، سنجیدگی اور کردار کی چٹان۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہمیں یہ سکھایا کہ اصل بہادری محاذ پر ہی نہیں، مائیک کے سامنے بھی ثابت کرنی پڑتی ہے۔ جہاں ہر سوال ایک جال ہوتا ہے، وہاں الفاظ کو توازن سے تھامنا، جذبات کو قومی مفاد میں ڈھالنا، اور خود کو ادارے کی شناخت بنانا، کسی عام شخص کا کام نہیں۔ میجر جنرل احمد شریف نے یہ سب کچھ ایسی سادگی اور مہارت سے کیا کہ اُن کے نقاد بھی تعریف پر مجبور ہوئے۔
اور پھر، وہ لمحہ آیا جب وہ مسکرائے۔ ایک عرصے بعد اُن کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ دیکھی گئی۔ نہ وہ مسکراہٹ تمسخر تھی، نہ غرور۔ وہ ایک سپاہی کی مسکراہٹ تھی، جو کئی محاذ عبور کر کے اب اعتماد کی ایک نرم چمک بن چکی تھی۔
قوم نے اسے محسوس کیا، اسے سراہا اور اپنے جذبات کو شعر و شاعری میں ڈھال کر اُنہیں سلام پیش کیا۔ کیونکہ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں، جو صرف وردی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار کی شفافیت سے دلوں میں اُترتی ہیں۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری صرف ایک ترجمان نہیں، ایک روایت ہیں۔ وہ روایت جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وقار کبھی بلند آواز میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ اُس خموشی میں چھپا ہوتا ہے جو پورے ادارے کی حرمت کا خیال رکھے۔ وہ شخص جو دشمن کو للکارنے سے پہلے اپنے الفاظ کا وزن دیکھتا ہے، درحقیقت وہی اصل ترجمانِ وطن ہے۔
آج جب ہم انہیں دیکھتے ہیں، تو دل سے ایک دعا نکلتی ہے:
‘سلام اُس پر کہ جو لمحہ لمحہ، فرض کی معراج لکھتا ہے
نہ ہنسی بے جا، نہ غصہ بے محل — ہر جذبہ اعتدال لکھتا ہے
جب للکارا دشمن نے سرحد کو ہماری
فوجِ پاک نے دکھائی بہادری ساری،
احمد شریف، تیری آواز تھی وہ طوفان،
جس نے بھارت کی چالوں کو کیا نیست و نابود ہر آن۔’
یہ کالم اُن کے لیے ایک خاموش سلام ہے۔ ایک سپاہی کو، جس نے زبان کو بھی وردی کی طرح سنبھال کر پہنا۔ جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ اصل اثر دلیل میں ہے، چیخ و پکار میں نہیں۔ اور یہی انداز ہمیں آپ کے شایانِ شان لگا، ڈی جی صاحب
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













