امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جو وعدے کیے تھے، ان میں سے ایک بڑا وعدہ امریکا کو مشرق وسطیٰ اور دُور دراز ممالک کی جنگوں سے باہر نکالنا تھا۔ جمعہ 13 جون کی صبح جب اسرائیلی طیاروں نے ایران پر بمباری کی تو مشہور جریدے دی گارجین نے لکھا کہ ’امریکا نے خود کو اس جنگ سے جلد علیحدہ کرنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ اس اسرائیلی جارحیت سے مشرق وسطیٰ میں مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسرائیل کے اس یکطرفہ اقدام نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے شروع کیے گئے مذاکرات کو سبوتاژ کردیا ہے‘.
امریکی وزیر خارجہ (سیکرٹری آف اسٹیٹ) مارکو روبیو نے اپنے بیان میں اسرائیلی جارحیت کو یکطرفہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ ایران کے خلاف اس حملے میں ہم ملوث نہیں ہیں اور ہمارا مقصد خطے میں صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ 13 جون سے کہہ رہا ہے کہ اگر ایران امریکی مفادات پر حملہ نہیں کرتا تو ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: اس سے قبل کہ دیر ہو جائے ایران کو کشیدگی کم کرنے پر بات کرنی چاہیے، ٹرمپ
لیکن گزشتہ روز جی7 سمٹ کے موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا ابھی تک وہ اس جنگ کا حصہ نہیں ہیں لیکن ان کی شمولیت کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران کے ایک کروڑ شہریوں کو شہر خالی کرنے کا مشورہ دیا۔
وسیع تناظر میں ایران اسرائیل جنگ میں صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کے غیر جانبداری کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو جو چیزیں سمجھ آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ امریکا اس جنگ میں مکمل طور پر غیر جانبدار تو نہیں بلکہ میزائل، اسلحہ، اسرائیلی جہازوں کو ایندھن کی فراہمی میں مددگار ہے اور دوسری طرف سفارتی اور باضابطہ طور پر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ سفارتی سطح پر اس جنگ کے حامی نظر نہیں آتے، اور آئیے اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور سیاسی حکمت عملی کے کلیدی نکات درج ذیل ہیں۔
ٹرمپ سفارتکاری کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مواد کی افزودگی کے لیے ایران کو نیوکلیئر ڈیل کی پیشکش کی اور اس کے لیے سفارتی مذاکرات پر زور دیا ہے، خاص طور پر عمان میں مذاکرات کے امکانات کو ترجیح دی۔
انہوں نے اسرائیل سے کہا کہ وہ ایران پر حملوں کو روکے تاکہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔
مزید پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کا اسرائیلی منصوبہ مسترد کردیا
بی بی سی کی خبر کے مطابق امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے قتل کی تجویز کو مسترد کیا۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے بیانات، جیسے کہ ’خونریز جنگ‘ کو ختم کرنے کے لیے معاہدے کی حمایت، ان کی اسرائیلی جارحیت سے انحراف کی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
’سب سے پہلے امریکا‘ پالیسی
صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کو غیر ملکی جنگوں سے نکالیں گے اور مشرق وسطیٰ میں نئے تنازعات سے گریز کریں گے۔ ان کے حامی ایران اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف ہیں۔
سفارت کاری کی گنجائش رکھنا
صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے تعلقات ایران اور غزہ کے معاملات پر اختلافات کی وجہ سے زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن نیتن یاہو کی ایران پر فوجی کارروائی نے امریکی صدر کو مزید پریشانی میں مبتلا کیا۔ صدر ٹرمپ اس معاملے میں مذاکرات کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ اسرائیل کی محدود حد تک حمایت کرنا چاہتے ہیں
صدر ٹرمپ اسرائیل کے حامی تو ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ امریکا اس کی جنگ کا براہِ راست فریق بنے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت کی جنگ رکوائی، ایران و اسرائیل کے درمیان بھی جلد معاہدہ ہوگا : ڈونلڈ ٹرمپ
کونسل آن فارن ریلیشنز تھنک ٹینک کے ایلیٹ ایبرامز لکھتے ہیں کہ ’ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کے حملے سے آگاہی ظاہر کی، پھر خود کو الگ کر لیا، پھر تعریف بھی کی، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ وہ شریک دکھنا چاہتے ہیں، ملوث نہیں‘۔
جغرافیائی اور تجارتی سیاسی حکمت عملی
صدر ٹرمپ تجارت بڑھانے پر زور دینے والے رہنما ہیں۔ وہ ایک علاقائی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی جنگ جو عالمی تیل منڈیوں کو متاثر کرے، تاہم صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات، جیسا کہ ایک طرف شمولیت سے انکار، دوسری طرف اسرائیل کی حمایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے حالیہ بحران بے حد پیچیدہ نوعیت کا حامل ہے جبکہ صدر ٹرمپ اپنی ’امن ساز‘ میراث کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔