چین کی قدیم ریشم سازی، جو کبھی دنیا بھر میں مشہور تھی، اب جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مصنوعی ریشوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہونے والی اس صنعت کو لیبارٹری میں تیار سنہری کوکونز نے ایک نیا رنگ دیا ہے۔
سنہری کوکونز نے دیہاتوں کو بدل دیا
سفید کوکونز، جن کی کوئی قیمت نہ تھی، اب ان کی جگہ سنہری کوکونز نے لے لی ہے جو نہ صرف خوبصورت قدرتی رنگ رکھتے ہیں بلکہ جراثیم کش خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔ ان کو رنگنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
کیہوا کا گاؤں، ترقی کی مثال
صوبہ ژیجیانگ کے زیڈونگ نامی گاؤں میں کبھی ریشم کی پیداوار بند ہو چکی تھی، لیکن 2018 میں ‘گولڈن سلک ورم نمبر 1’ کے تعارف کے بعد وہاں کے کسانوں نے دوبارہ ریشم کی کاشت شروع کی۔ ٹریننگ، مشینی نظام اور خریداروں کی گارنٹی نے گاؤں کی آمدنی میں اضافہ کر دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت اور ریشم کی دنیا
اب ایک ہی ڈیزائن کی لاکھوں اقسام صرف چند سیکنڈز میں بنائی جا سکتی ہیں۔ وینسلی کمپنی نے ایسا سسٹم تیار کیا ہے جس سے ہر فرد کے لیے منفرد کپڑے اور ڈیزائن تیار کیے جا سکتے ہیں۔
رنگ کاری بغیر پانی کے
ایک خاص مشین کے ذریعے اب بغیر پانی استعمال کیے کپڑوں کو رنگا جاتا ہے، جس سے پانی کی بچت اور ماحول کی حفاظت دونوں ممکن ہو گئی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب ریشم کے علاوہ کپاس، کتان اور اون میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔
سنہری کوکونز کا طبی استعمال
یہ کوکونز صرف ریشم کے لیے ہی نہیں بلکہ اب طبی تحقیق میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ان سے یادداشت بڑھانے اور پٹھوں کی بیماریوں کے علاج کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کچھ سائنس دان تو کہتے ہیں یہ خوراک کے طور پر بھی ممکنہ طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔
دنیا تک چینی ریشم کی رسائی
ریشم کی یہ نئی شکل نہ صرف چین کے مختلف علاقوں میں ترقی لا رہی ہے، بلکہ عالمی مارکیٹ میں بھی پسند کی جا رہی ہے۔ چینی ریشم اب فیشن، تحفوں، اور ثقافتی نمائشوں میں دوبارہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔