پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے

جمعرات 18 ستمبر 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قیام پاکستان کے 4 سال بعد 1951 میں سعودی عرب پاکستان نے دوستی کا معاہدہ کیا۔ 1960 میں پاکستان میں سعودی سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ملٹری ٹریننگ پروگرام شروع ہوا۔ 1980 سے دفاعی معاہدوں کی بنیاد وسیع ہونی شروع ہوئی۔ پاکستانی دستوں کی سعودی عرب میں تعیناتی شروع ہوئی۔ 1988 میں پاکستان نے سعودی عرب کو چین سے بلاسٹک میزائل حاصل کرنے میں مدد کی۔

بلاسٹک میزائل کے حصول کی کہانی بہت فلمی لگتی ہے۔ اس دوران ایک سفارتی بحران بھی پیدا ہوا جب امریکی سفیر کو سعودی عرب سے نکالا گیا۔ اسرائیلیوں کی کانپیں ٹانگتی رہیں جو امریکیوں کو پکڑ کر سیدھی کرنی پڑی تھیں۔ اس بحران کا دونوں ملکوں نے ڈٹ کر سامنا کیا۔ یہ کہانی کبھی پڑھیں تو جانیں گے کہ سعودی-پاکستان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور یہ اتنے گہرے کیوں ہیں۔

ان میزائلوں کی سعودی عرب نے پہلی بار 2014 میں اپنے قومی دن کے موقع پر نمائش کی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس تقریب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف مہمان خصوصی تھے۔ یہی جنرل راحیل شریف اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کو اب ہیڈ کررہے ہیں اور سعودیہ میں ہی مقیم ہیں۔

پاک سعودی تعلقات صرف دفاعی شعبے اور اسٹریٹجک معاہدوں تک محدود نہیں ہیں۔ پاکستان کو ادھار تیل کی ضرورت ہو، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہوں، زلزلہ سیلاب ہو تو سعودی ایئربرج قائم کردیتے ہیں۔ سعودی عرب میں 22 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ یہ پاکستانی سعودی عرب کی تعمیر میں کئی دہائیوں سے حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کو آنے والی ترسیلات ذر میں سعودی عرب پہلے نمبروں پر ہے۔

حالیہ پاک-سعودی دفاعی معاہدے سے پہلے سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے وژن 2030 کو جاننا ضروری ہے۔ وژن 2030 سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا مرکز بنائے رکھنے، عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بننے اور 3 براعظموں کو جوڑنے والے تجارتی حب بننے سے متعلق ہے۔ دفاعی شعبے میں اس وژن کے اہداف بہت اہم ہیں۔

سعودی عرب زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والے ملکوں میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ 2023 میں سعودی دفاعی بجٹ 75 ارب 81 کروڑ ڈالر تھا۔ 2030 تک دفاعی اخراجات کا 50 فیصد مقامی دفاعی صنعت سے ہی حاصل کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔

جنرل اتھارٹی فار ملٹری انڈسٹری بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرے گی۔ دفاعی شعبے کی سپلائی چین کا 74 فیصد انحصار مقامی انڈسٹری پر شفٹ کرے گی۔ ڈرون، سائبر سیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت پر مبنی دفاعی نظام ترتیب دیے جائیں گے۔

اب تک دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدوں میں پاکستان حرمین کے دفاع اور سعودی سیکیورٹی کے لیے دستے فراہم کرنے کا پابند تھا۔ اب نئے معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس ایک جملے نے شریکوں کو اگ لگا دی ہے اور ان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔

انڈیا کا ابتدائی بیان محتاط انداز کا ہے کہ ہم معاہدے کی مانیٹرنگ اور تجزیہ کر رہے ہیں۔ اس کا جائزہ لیں گے اور معاہدے کے علاقائی استحکام پر اثرات کو دیکھیں گے اور اپنے نیشنل انٹرسٹ کا تحفظ کریں گے۔ اس کا جواب جنوبی ایشیا کے امریکی ماہر مائیکل کگلمین کی ٹویٹ سے کچھ یوں آیا کہ اس معاہدے کا کوئی اثر پاک-بھارت تناؤ پر تو پڑتا دکھائی نہیں دیتا البتہ چین، ترکی اور سعودی عرب اب واضح طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ بس اب تیرا کیا بنے گا کالیا ہی لکھنے کی کسر تھی۔

اسرائیلی سائٹ یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ بتاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کس طرح نئے اتحاد بنانے کا سوچ رہا ہے۔ اس معاہدے نے اسرائیل کے لیے صورتحال بہت پیچیدہ کردی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے آنسو ابراہام اکارڈ کے مستقبل کا سوچ کر بہہ رہے ہیں۔ اس سائٹ کا کہنا ہے کہ امن معاہدہ تو امریکا نے کرایا تھا۔ اب مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا نیا پلیئر یعنی پاکستان داخل ہوگیا ہے جو اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔

پاکستان کی ایک سیکیورٹی ڈاکٹرائین بھی ہے۔ آپ کا دھیان اس سے کسی سوہنی مٹیار کی طرف جارہا ہوگا تو بنتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق فارن ریزرو، انرجی، واٹر اور فوڈ سیکیورٹی سب اس ڈاکٹرائن کا حصہ ہیں۔ اب دوبارہ سعودی ویژن 2030 دیکھیں کہ وہ کس قسم کی دفاعی خود کفالت کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری ڈاکٹرائن اور ان کا خودکفالت پروگرام مل کر کس قسم کے چن چڑھا سکتے ہیں۔ ویسے ہی چن جن پر پھر شاعروں نے چن میرے مکھنا قسم کے گیت لکھے ہیں۔

عرض یہ ہے کہ اس معاہدے کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہوگا۔ اس کے نتیجے میں جو نیو نارمل سامنے آئے گا وہ یہ ہوگا کہ اب حملے اور جنگ وغیرہ کا کسی کو خواب اور خیال گھٹ ہی آئیں گے۔ اس لیے لڑائی کی باتیں سوچیں اور کام پر توجہ دیں کہ ابھرنے والے نئے امکانات اور معاشی سرگرمیوں میں اپنے لیے گوڈ فٹ قسم کے آپشن تلاش کریں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ایشیا کپ 2025: سپر فور مرحلے کا شیڈول جاری، کون کس کے خلاف کھیلے گا؟

چمن میں دھماکا: 5 افراد جاں بحق، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان کی مذمت

وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا کامیاب دورہ مکمل کرکے لندن پہنچ گئے

گوگل ڈاؤن: دنیا بھر میں جی میل، یوٹیوب، سرچ اور ڈرائیو متاثر

خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟

ویڈیو

اسلام آباد میں اولمپئین ارشد ندیم کے نام سے شاہراہ منسوب کرنے کا فیصلہ

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا شگفتہ انٹرویو

سعودی عرب اور پاکستان کسی بھی جارح کیخلاف ہمیشہ ایک رہیں گے، سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان

کالم / تجزیہ

سعودی پاکستان دفاعی معاہدے کی عالمی میڈیا میں نمایاں کوریج

چارلی کرک کا قتل

عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں