پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بال اس وقت حکومت کے کورٹ میں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو یاد دہانی کروائی کہ اس عدالت نے 1 مارچ کو 90 روز جبکہ 4 اپریل کو 14 مئی کو انتخابات کرانے کا فیصلہ دے رکھا ہے اور یہ فیصلہ نافذ العمل ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ مشینی انداز میں کام نہیں کرتی۔ لوگوں کا رویہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اس رویے کو دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے جہاں پرتشدد احتجاجات پہ اظہار افسوس کیا وہیں معیشت کی زبوں حالی کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کل میں موٹر وے پر تھا جو بالکل خالی پڑا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت قوم میں شدید تقسیم موجود ہے، ایسے حالات میں اگر انتخابات ہو بھی گئے تو ان کے نتائج کون تسلیم کرے گا۔ انہوں نے جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب امن ہو گا تب ہی آئین پر عمل درآمد ہو گا۔
آج سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل مقتدر اختر شبیر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آئے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظر ثانی درخواست پر اظہار خیال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے تو پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ پہلے آپ نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں، سکیورٹی نہیں دی جا رہی۔ لیکن اب آپ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں ہیں۔
چیف جسٹس کا موقف تھا کہ ان نکات پر پہلے بحث نہیں ہوئی، ہم نوٹسز جاری کر کے باقی فریقین کا موقف بھی سن لیتے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے نظر ثانی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی درخواست کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خیال میں درخواست کے قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کے وکیل کو تیاری کا موقع اور جواب دینے کی مہلت ملنی چاہیئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نگران حکومت غیر قانونی ہے اور اس وقت ملک کی پچاس فیصد آبادی پر غیر نمائندہ لوگ حکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن جواب کے لئے مہلت مانگ رہا ہے، لیکن 14 مئی کو انتخابات کے حوالے سے عدالتی احکامات پر کوئی حکم امتناع نہیں ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے احکامات فائنل ہیں لیکن ہم اس وقت ایک معلق حالت میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے سیاسی قوتیں بشمول حکومت لڑائی کو بڑھاوا دے رہی ہیں وہ بہت افسوسناک ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، املاک کو جلایا جا رہا ہے، اداروں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امن پر فوکس کریں، باہر دیکھیں کیا ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ صبر کی ہدایت کرتا ہے مقابلے بازی کی نہیں، لوگ جنگلے پھلانگ رہے ہیں اور صوبائی حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔
’جس طرح سے تشدد ہو رہا ہے بہت افسوسناک ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ لوگوں کے سروں میں گولیاں لگی ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات جمہوریت کا مخلص ہوتے ہیں لیکن اس کے لئے قانون کی حکمرانی چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ اخلاقی برتری کا معیار تلاش کریں۔ جب باہر انتشار ہو تو کون آئین پر عمل درآمد کرے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایک فریق اخلاقی برتری کے پائیدان پر کھڑا ہو تو عدالت دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا سکتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس طرح سے گرفتاریاں کی گئیں اس سے مکالمے کا امکان کم ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیے کہ جب فروری میں کاروائی کا آغاز ہوا تو اس وقت صرف ایک فریق آئین کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مکالمے کا عمل کیوں رک گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ ہم مکالمے میں اتفاق رائے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ پھر ایک اہم چیز ہو گئی۔
بیرسٹر علی ظفر بولے کہ پھر گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ جس طرح سے عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا گیا ساری قوم نے دیکھا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا اس کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے ۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو مکالمے کو جاری رکھوانا چاہیئے، زبانی جمع خرچ نہیں ہونا چاہیئے۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ زبان آپ کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سیاسی معاملات کے بارے میں نہیں جاننا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پاکستان کے لوگوں کے لئے کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بہتر صورتحال کی توقع کرنی چاہیئے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے شکوہ بھرے انداز میں کہا کہ وفاقی حکومت نے تو اس عدالتی کاروائی کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کو نظر ثانی درخواست دائر کرنی چاہیئے تھی۔
بیرسٹر علی ظفر کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے عمل درآمد پر اصرار پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں وقت دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کسی کے پاس اخلاقی برتری نہیں۔ آپ اپنے رویے سے ثابت کریں۔