کراچی آج پھر رو رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جسے کبھی روشنیوں کا تاج پہنایا جاتا تھا، مگر اب اندھیروں، غفلتوں اور نااہلیوں نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں معصوم زندگیاں لمحوں میں مٹی ہو جاتی ہیں۔
ایک اور تین سالہ معصوم گٹر میں دم توڑ گیا۔
نیپا چورنگی پر ابراہیم کی موت کوئی حادثہ نہیں—یہ شہر پر برسوں سے مسلط بدانتظامی، مجرمانہ غفلت اور حکومتی بے حسی کا ایک اور خونچکاں ثبوت ہے۔
یہ خاندان شاہ فیصل کالونی کا رہائشی تھا۔ اتوار کی رات معمول کی خریداری کے لیے گلشنِ اقبال آیا۔ خریداری کے بعد جیسے ہی وہ شاپنگ سینٹر سے باہر نکلے، تین سالہ بچے نے باپ کا ہاتھ چھوڑا اور بھاگنے لگا۔ سامنے ایک کھلا مین ہول تھا—بغیر ڈھکن، بغیر وارننگ، بغیر روشنی کے۔ ایک لمحہ… اور معصوم ابراہیم اندھی کھائی میں گرا اور پھر نہ ملا۔
باپ کی چیخیں، ماں کی دہائیاں، لوگوں کی دوڑ بھاگ… مگر اندھیرے میں غائب ہوتی ایک معصوم جان کسی کے ہاتھ نہ آئی۔
سانحے کے فوراً بعد پورا علاقہ ماتم کدہ بن گیا۔ نیپا چورنگی پر شدید احتجاج پھوٹ پڑا۔ ٹائر جلائے گئے، سڑکیں بند ہوئیں، مشتعل ہجوم نے میڈیا اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ہجوم کے باعث ریسکیو آپریشن کئی بار رک گیا اور حسن اسکوائر، جامعہ کراچی اور گلشن چورنگی جانے والی شاہراہیں مکمل جام ہو گئیں۔
لیکن اس المیے کی سب سے تکلیف دہ تفصیل ابھی سامنے آنا باقی تھی۔
غمزدہ والدین جب مدد کے لیے انتظامیہ کے پاس گئے تو جواب ملا:
’مشینری تو ہے، مگر اس میں پیٹرول ڈالنے کے پیسے نہیں۔‘
سوچیں…
ایک ماں جس کا تین سالہ بچہ ابھی گٹر میں گم ہوا تھا، اس کا دل کیا کہہ رہا ہوگا؟
مگر اُس ماں نے رونا بند کیا، اپنے کانپتے ہاتھوں سے پرس نکالا، اور پندرہ ہزار روپے کا پیٹرول ڈلوایا تاکہ مشینری چل سکے، تاکہ شاید اس کا بچہ زندہ نکل آئے۔
مگر چودہ گھنٹے تک بھاگ دوڑ، کھدائیاں، مشینیں، گاڑیوں کی قطاریں…
اور آخرکار
ماں کو اپنے ننھے ابراہیم کی لاش ملی۔
یہ شہر کس مقام پر آ کر کھڑا ہوگیا ہے جہاں والدین کو اپنے بچوں کی تلاش کے لیے سرکاری مشینری میں پیٹرول بھی خود ڈالنا پڑتا ہے؟
اگر یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوتا، تو انتظامیہ فوراً گرفتار ہوتی، حکمرانوں پر مقدمے بنتے، پارلیمنٹ لرز جاتی، وزیروں کی چھٹیاں ہو جاتیں، تخت الٹ دیے جاتے۔
مگر یہاں؟
یہاں کچھ نہیں ہوگا۔
یہاں سب خاموش رہیں گے،
اس وقت تک جب تک ایک اور بچہ کسی گٹر میں گر کر نہیں مرے گا۔
مگر سانحہ صرف یہاں نہیں رکا۔
ابراہیم کی لاش نکالنے والے خاکروب کو پولیس نے تھپڑ مارے۔
خاکروب نے کہا:
’میں نے بچے کی لاش نکال کر انکل کو دی۔ پولیس والے پوچھنے لگے تم کون ہو؟ میں نے کہا میں نے لاش نکالی ہے… تو وہ مجھے تھپڑ مارنے لگ گئے۔‘
یہ وہ شہر ہے جہاں لاش نکالنے والے مزدور کو شاباش نہیں، تھپڑ ملتے ہیں۔
علاقائی کونسلر نے ایک اور روح کانپ دینے والا سچ بیان کیا:
’شہریوں نے خود لاش ڈھونڈ کر سوزوکی میں ڈالی۔ واٹر بورڈ والے پوری رات ریسکیو میں لگے رہے، مگر انہیں یہ ہی معلوم نہیں تھا کہ گٹر لائن کس رخ جاتی ہے۔‘
یہ بیان نہیں—یہ اعترافِ جرم ہے۔
یہ کراچی کے پورے نظام پر فردِ جرم ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ابراہیم کی موت پر واقعی شہر میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
جواب ہے: نہیں۔
کیوں کہ یہ بچہ زرداری خاندان کا نہیں تھا۔
یہ کسی مخدوم، کسی سردار، کسی وڈیرے کا لختِ جگر نہیں تھا۔
یہ ایک غریب کا بچہ تھا۔
اور اس شہر میں غریب کے بچوں کی لاشیں ہمیشہ بے ڈھکن گٹروں میں ہی ملتی ہیں۔
اگر یہ سانحہ کسی طاقتور کے گھر ہوا ہوتا، تو شاید پورا کراچی راتوں رات تحریر اسکوائر بن جاتا۔
ایمبولینسوں کی قطاریں لگ جاتیں۔
وزیر اعلیٰ نیپا چورنگی میں ڈیرا ڈال دیتا۔
شہر کے سارے مین ہول چوبیس گھنٹے میں ڈھکنوں سے بھر دیے جاتے۔
اور میڈیا سات دن تک بریکنگ نیوز چلاتا۔
مگر یہاں نہ کوئی ہنگامہ ہو گا، نہ کوئی استعفیٰ، نہ کوئی گرفتاری۔
یہاں بس ایک لاش ہوگی، چند گھنٹے کا شور ہوگا، کچھ احتجاج ہوں گے…
اور پھر سب بھول جائیں گے،
جب تک کسی اور ماں کی گود خالی نہ ہو جائے۔
یہ کراچی کوئی عام شہر نہیں۔
یہ پاکستان کا سب سے بڑا، سب سے مصروف، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے۔
مگر اس کے میونسپل اداروں کی حالت یہ ہے کہ انہیں اپنی گٹر لائنوں کا راستہ تک معلوم نہیں۔
پندرہ سال کی حکمرانی، اربوں روپے کے بجٹ، نکاسیِ آب کے بلند دعوے—
اور زمینی حقیقت یہ کہ شہر کے گٹر کھلے ہیں، ڈھکن غائب ہیں، سڑکیں قاتل بن چکی ہیں، اور ادارے خواب خرگوش میں ہیں۔
ستمبر میں تین سینی ٹیشن ورکرز مین ہول میں زہریلی گیس سے دم توڑ گئے۔
مئی میں چھ سالہ بچہ کھلے گٹر میں ڈوب گیا۔
اپریل میں لیاقت آباد نالے سے کمسن بچی کی لاش ملی۔
ہر چند ماہ بعد ایک معصوم اس شہر کی بدانتظامی کا ایندھن بنتا ہے۔
نیپا چورنگی کا کھلا مین ہول صرف ایک گڑھا نہیں تھا—
یہ اس شہر کے پورے نظام کا برسرعام ماتم تھا۔
یہ چیخ رہا تھا کہ:
کراچی اب لاوارث ہو چکا ہے۔
ابراہیم کی موت صرف ایک گھر کا دکھ نہیں—
یہ کراچی کی اجتماعی چیخ ہے۔
یہ چیخ ہے کہ
کراچی کب زندہ ہوگا؟
اگر آج بھی اس شہر نے آواز نہ اٹھائی تو کل کوئی بھی بچہ محفوظ نہیں ہوگا۔
کراچی کو انصاف چاہیے۔
ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا۔
اور اس شہر کو وہ حفاظت واپس دینی ہوگی جس کا یہ برسوں سے منتظر ہے۔
خدارا… روشنیوں کے شہر کو مزید اندھیروں میں نہ دھکیلیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔











