ملک بھر میں مختلف جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر پولیس، ایف آئی اے، نیب اور دیگر ادارے ملزمان کو حراست میں لے لیتے ہیں۔
اس دوران ملزمان کی جانب سے ادویات کی عدم فراہمی سے لے کر وکیل اور گھر والوں سے ملاقات نہ کروانے سمیت مختلف شکایات معمول کی بات سمجھی جاتی ہیں۔
تاہم اب سینیٹ نے گرفتار یا زیر حراست افراد کے حقوق کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے کرائم سینز اور زیر حراست افراد کے انٹرویوز پر پابندی عائد کردی
جس کے تحت اب ملزم کو اب دوران حراست گھر والوں سے ملنے، ڈاکٹر، پسند کے وکیل، مذہبی رہنما سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔
جبکہ گھر کے کھانے اور ادویات کی فراہمی بھی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
یہ بل اب قومی اسمبلی بھیج دیا گیا ہے اور وہاں سے منظوری کے بعد یہ بل قانونی شکل اختیار کر لے گا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے مطابق پاکستان میں دوران حراست ملزم کو حقوق نہیں دیے جاتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 14 دوران حراست ملزم کو کچھ حقوق دیتا ہے۔
انہوں نے مذکورہ بل کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
بل کے متن کے مطابق گرفتاری سے قبل اس شخص کو تحریری طور پر گرفتاری، زیر حراست ہونے یا زیر تفتیش ہونے کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پشاور پولیس کا زیر حراست شہری پر مبینہ تشدد، لواحقین کے احتجاج پر ایس ایچ او معطل
اس کے بعد اس شخص کو اس کی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
’ملزم کو اپنے وکیل سے تنہائی میں ملاقات کی اجازت ہوگی، زیر حراست شخص کے حقوق کا تحفظ ہم سب کی ذمے داری ہے۔‘
بل کے متن کے مطابق زیر حراست ملزم کو اپنی فیملی سے ملاقات یا بات کرنے کی اجازت ہو گی، اس کے علاوہ ذاتی ڈاکٹر اور اپنے مذہبی رہنما سے ملاقات کی بھی اجازت ہوگی۔
مزید پڑھیں: پشاور جوڈیشل کمپلیکس: برقعہ پوش شخص کی فائرنگ سے زیر حراست ملزم ہلاک
اس کے علاوہ اخبارات تک بھی رسائی ہوگی اور دوران حراست گھر کے پکے کھانے کی بھی اجازت ہوگی۔
بل میں زیر حراست ملزم کو سہولیات کی عدم فراہمی پر متعلقہ افسر کے لیے سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
زیر حراست ملزم کو اس کے حقوق سے آگاہ نہ کرنے پر متعلقہ افسر کو ایک سال تک قید اور 6 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
زیر حراست شخص کی وکیل یا اہل خانہ سے ملاقات نہ کرانے، ڈاکٹر اورمذہبی رہنما تک رسائی روکنے والے افسر کو ایک سال قید اور 4 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔














