سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جواد ایس خواجہ نے عزیز چغتائی ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی ہے اور استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے۔
جواد ایس خواجہ نے استدعا کی ہے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (1)(d)(i) اور (ii)آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالدعم قرار دیا جائے۔
مزید پڑھیں
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے۔
جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عدالت ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بھیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے۔
یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ ملٹری کورٹس کی تمام کارروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔ یہ بھی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں۔ درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔
جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ ہمارا مقصد مجرمانہ سرگرمیوں کے مشتبہ افراد کو بری کرانا نہیں۔ ملزمان کے کسی فعل کی حمایت نہیں کرتا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ عام شہریوں کے خلاف کیس چلانے کا فورم کریمنل کورٹس ہیں۔ کورٹ مارشل کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عام شہریوں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہوں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ میرا موقف ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔ کورٹ مارشل کی صورت میں آئین میں دیے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ شفاف ٹرائل اسی صورت ممکن ہوگا جب مقدمے کی کھلی سماعت ہو اور ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہو۔ کورٹ مارشل کی صورت میں ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دستیاب نہیں ہوگا۔ درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی فریق ہیں۔