سیما حیدر اس وقت پاکستان اور بھارت میں موضوع بحث ہیں۔ بھارت میں موجود پاکستانی شہری سیما اور ان کے بچوں کے بارے معلومات کے لیے وی نیوز نے وہاں کا رخ کیا جہاں انہوں نے 3 برس گزارے۔
سیما حیدر 3 برس کراچی کے علاقے بھٹائی آباد میں مقیم رہیں۔ یہ علاقہ کراچی ایئر پورٹ سے متصل کچی آبادی پر مشتمل ہے۔ وہاں داخل ہوتے ہی سب پہلے میں نے رخ کیا چھوٹی سی اس مارکیٹ کی طرف جہاں سے علاقہ مکین بتاتے ہیں کہ سیما ایزی پیسے کے ذریعہ رقم نکلوانے آیا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک برگر کا ڈھابا ہیں جہاں وہ اور ان کے بچے برگر کھایا کرتے تھے۔
ایزی پیسہ والے سے دریافت کرنے پر پتا چلا کہ وہاں سے سیما حیدر کو ہر ماہ معقول رقم ملا کرتی تھی۔ دکان مالک کا کہنا تھا کہ رقم نکلوانے کے علاوہ سیما موبائل ڈیٹا پیکیج بھی ان ہی کے پاس سے کروایا کرتی تھیں۔ دیگر دکانداروں کا کہنا تھا کہ وہ روزمرہ کی اشیا بھی اسی مارکیٹ سے خریدا کرتی تھیں۔
مارکیٹ سے حال احوال لینے کے بعد ہم نے رخ کیا اس محلے کا جہاں ایک گھر کی پہلی منزل پر سیما نے اپنے بچوں کے ہمراہ 3 برس گزارے۔ بھٹائی آباد کی مارکیٹ سے یہ محلہ آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں پہنچنے کے لیے آپ کو ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اکثر مکان کچے اور واجبی سے ہی ہیں۔
محلے کی رہنمائی کے بعد بالآخر ایک خالی پلاٹ کے ساتھ ایک منزلہ گھر کے دروازے ہر ایک بچے نے کہا کہ یہی وہ گھر ہے جہاں سیما رہا کرتی تھیں۔ دستک دینے پر اندر سے مالک مکان کا بیٹا باہر آیا اور تعارف کرانے پر اپنے والد کو باہر لے کر آگیا۔
سیما کے سابقہ مالک مکان نے بتایا کہ سیما اپنے بچوں کے ہمراہ اس گھر کی پہلی منزل پر 10 ہزار روپے ماہانہ کرایے پر رہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اوائل میں ڈیڑھ سال تک سیما کے والد بھی یہیں رہا کرتے تھے جس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیما مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں اور روزے و نماز کی بھی پاپند تھیں۔ اگر وہ اب یہ کہتی ہیں کہ انہیں کلمہ یا نماز پڑھنی نہیں آتی تو وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیما کے شوہر ہر ماہ انہیں 70 سے 80 ہزار روپے بھیجا کرتے تھے اور اسی سے گھر کا کرایا اور دیگر اخراجات پورے ہوتے تھے۔
سیما کے سابقہ مالک مکان کا کہنا تھا کہ وہ پڑوسیوں کی غمی و خوشی میں شامل ہوا کرتی تھیں۔ سیما کے جانے کے بعد مالک مکان نے ان کے شوہر حیدر سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ ان کی بیوی وہاں سے چلی گئی ہیں لیکن سامان موجود ہے اور 2 مہینے کا کرایہ بھی رہتا ہے جس کے بعد حیدر نے یہاں سے سامان بھی اٹھوایا اور کرایہ بھی بھجوادیا۔
مالک مکان کے بعد ہم نے وہاں موجود بچوں سے دریافت کیا کہ سیما کے بچوں کی کیا مصروفیات تھیں تو وہاں موجودمالک مکان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ سیما کے بیٹے نے بھارت جانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی جب کہ سیما نے ہم سب سے یہی کہا تھا کہ کوئی بھی پوچھے تو یہ بتانا کہ ہم گاؤں جارہے ہیں۔
مکان مالک کے بیٹے نے مزید بتایا کہ سیما کے سارے بچوں سوائے منی کے سب کے پاس فون تھے
اور وہ بھی فرحان کے ساتھ اس کے موبائل پر پب جی کھیلتا تھا۔ سیما کے بڑے بیٹے فرحان کے دوست کا کہنا تھا کہ فرحان کی عمر 8 سال تھی اور اس کے پاس اپنا موبائل فون تھا جس سے وہ پب جی گیم کھیلتا تھا۔
اہل محلہ کے مطابق سیما اپنے بچوں کو خود اسکول چھوڑنے جاتی تھیں اور سودا سلف بھی خود ہی خریدتی تھیں۔
اہل علاقہ سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ سیما کو محلے میں سوشل ہونے کے باعث سب جانتے تھے لیکن سندھی لباس میں ملبوس سادہ سی زندگی گزارنے والی سیما کوئی ایسا قدم اٹھائے گی اس پر وہ سب حیران تھے۔ دوسری جانب سیما کے شوہر حیدر کے حوالے سے یہ کہنا بھی غلط ثابت ہوا کہ وہ گھر کا خرچہ نہیں اٹھاتا تھا۔