حق ملکیت کے ایک کیس میں سپریم کورٹ نے محکمہ مال ڈیرہ غازی خان کو خاتون شہری کو 5 مربع زمین کا فوری قبضہ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے زمین کی ملکیت کے نام نہاد دعویدار ماموں کو قانونی چارہ جوئی کے تمام اخراجات بھی اپنی بھانجی کو ادا کرنےکا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سردار منصور کی درخواست پر سماعت کے دوران ان کے وکیل سے کہا کہ شرافت سے زمین بھانجی کے حوالے کردیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ خواتین کے حقوق کو غیرآئینی اور غیرشرعی طریقوں سے سلب کیا جا رہا ہے، انہوں نے ماموں سردار منصور کو قانونی چارہ جوئی کے تمام اخراجات بھی بھانجی سارہ اختر کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
درخواست گزار سردار منصور کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ بھانجی نے اپنی زمین 1989 میں ماموں سردار منصور کو فروخت کی، فروخت کے20 سال بعد زمین کی ملکیت کا دعوی کرتے ہوئے اپنے ہی دستخط سے انکاری ہوگئی۔
سارہ اختر کے وکیل یاسین بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ زمین کی مبینہ فروخت کے وقت سارہ اختر نابالغ تھی، سارہ کے ماموں سردار منصور سابق چیئرمین ضلع کونسل ہیں، جنہوں نے مذکورہ زمین اپنے کم سن بچوں، اہلیہ، ساس اور سالے کے نام منتقل کرائی۔
درخواست گزار ماموں کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیا عدالت کہتی ہے خواتین جو بھی کہیں وہ درست مانا جائے گا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ خواتین کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دے رہے، وہی آبزرویشن دی ہے جو بدقسمتی سے معاشرے میں ہو رہا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ لازمی نہیں ہمیشہ مرد ہی عورت کا حق مارے، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ابھی تک ایسا کوئی کیس آیا نہیں جس میں عورت نے مرد کا حق مارا ہو،
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ زمین کی خریداری ثابت کرنا خریدار کا کام تھا، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ 3 عدالتوں نے درخواست گزار کیخلاف فیصلہ دیا ہے۔