ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیل: چارج صحیح فریم ہوا نہ نیب کو شواہد کا پتا تھا، چیف جسٹس

پیر 27 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں  سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب ریفرنس سے متعلق ریمارکس دیے کہ چارج صحیح فریم ہوا اور نا نیب کو پتا تھا کہ شواہد کیا ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر  نواز شریف، ان کے وکلا اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز عدالت میں موجود تھے۔

 وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا تو عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جو حقائق آپ نے دیے کیا یہ ریفرنس دائری سے پہلے کے ہیں۔ وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 3 حقائق ریفرنسز سے پہلے اور باقی بعد کے ہیں، امجد پرویز نے 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مئی 2017 میں پانامہ جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔

ٹی او آرز کا اسکوپ کیا تھا، عدالت کا سوال

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کے حقائق اہم ہیں، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اس معاملے پر 3 سے 4 منٹ میں بات مکمل کر لیں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کہاں ہیں ان کا اسکوپ کیا تھا؟

امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ 20 اپریل کے آرڈر میں جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے اختیارات بیان کیے گئے ہیں اور ٹی او آرز بھی اسی آرڈر میں شامل ہیں، 20 اپریل کے فیصلے میں ہی جے آئی ٹی کو تفتیش کا اختیار دیا گیا۔ امجد پرویز نے عدالت کو جے آئی ٹی کی تشکیل اور اراکین کے حوالے سے آگاہ کیا۔

امجد پرویز نے بتایا کہ 5 مئی کو 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس میں 5 لوگ شامل تھے، جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، 10 والیم پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی اور پھر دلائل مانگے گئے جبکہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم پاکستان کی نااہلی کا فیصلہ دیا۔

عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوایا گیا تھا یا نیب ریفرنس دائر کرنے کی پابند تھی جس پر وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔

دوران سماعت بینچ ممبر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کیا احکامات جاری کیے تھے؟ جس پر امجد پرویز نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ نے احکامات دیے تھے کہ نواز شریف کے خلاف ریفرنسز دائر کیے جائیں۔

بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 29 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہاکہ آئندہ سماعت پر صرف 50 لوگوں کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت ہو گی۔

گزشتہ سماعت پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ نوازشریف کیخلاف العزیزیہ کیس میں کبھی میرٹ پر دلائل نہیں سنے گئے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نوازشریف نے 2018 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

احتساب عدالت نے جولائی 2018 میں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور 10 سال سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پہلے ہی ایون فیلڈ ریفرنس میں شریک ملزم مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو بری کرچکی ہے۔

نواز شریف کی پیشی کے پیش نظر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکلر جاری کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ آئی جی اسلام آباد اور ضلعی انتظامیہ سخت سیکیورٹی انتظامات کریں۔

سرکلر کے مطابق کورٹ روم نمبر 1 میں وکلا اور صحافیوں کا داخلہ خصوصی پاس کے ذریعے ہوگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ملازمین اور عدالتی عملہ خصوصی پاس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

نواز شریف کے ساتھ 15 وکلاء و لیگی رہنماؤں کو کمرہ عدالت جانے کی اجازت ہوگی۔ اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل آفس سے 10 وکلا کمرہ عدالت جاسکیں گے۔

واضح رہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سزا معطل کردی تھی۔ نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp