اسمبلی کا پہلا اجلاس: ’انہیں بولنے دیں گے تو کئی مسئلے حل ہو جائیں گے‘

جمعرات 29 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

4 سال بعد آنے والے دن یعنی 29 فروری کو نئی قومی اسمبلی کا پہلا دن تھا۔ اجلاس کی کوریج کے لیے پہنچے تو شاہراہ دستور پر رش  اور خوشگوار سی چہل پہل نظر آئی۔ اسمبلی کے باہر اور اندر عید کا سا سماں تھا جو کہ ہر نئی پارلیمنٹ کے وقت دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر نئی پارلیمنٹ کے آتے وقت عوام کی امیدیں پھر جاگ اٹھتی ہیں کہ شاید اب ہمارے درد کا مداوا ہو جائے اور ہماری زندگیوں میں تبدیلی آجائے۔

اسمبلی حال کے اندر بھی اپوزیشن اور حکومتی بنچز پر تناؤ کے باوجود عجیب سی آزادی کی فضا تھی کیونکہ ہر پارٹی کے ممبران اپنے رہنماؤں کی تصاویر اور بینرز لائے ہوئے تھے خاص طور پر پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے بینرز اور ماسکس نے اسمبلی کو ہائیڈ پارک بنا دیا تھا۔

یہاں عمران خان کے سوا باقی تقریباً تمام قومی قیادت بنفس نفیس موجود تھی۔

اپوزیشن بنچز پر سامنے ہی جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کے علاوہ پی ٹی آئی کے اسد قیصر، بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب جلوہ افروز تھے تو حکومتی بنچز پر 7 سال بعد 3 بار کے وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے فاروق ستار اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس وقت یہ خیال آیا کہ کاش عمران خان بھی یہاں موجود ہوتے تو پاکستان کی ساری  سیاسی قیادت ایک چھت تلے دیکھنے کو مل جاتی۔

اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے پرچم  کے رنگوں والے مفلر پہنے سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے عمران خان کے حق میں پرزور نعرے بازی کرکے حق نمائندگی ادا کیا تو ن لیگ کے ارکان نے نواز شریف کا بھرپور استقبال کیا اور شیر شیر کے نعرے لگائے۔

گزشہ مئی کے بعد پہلی مرتبہ ریڈ زون میں عمران خان کی تصاویر، نعرے

پی ٹی آئی کے متعدد ارکان عمران خان کے ماسک لے کر آئے ہوئے تھے اور انہوں نے ایوان میں ماسک پہن کر تصاویر بھی بنوائیں اور کئی ارکان تو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے جذباتی بھی ہوئے۔ یہ گزشتہ سال مئی کے بعد پہلا موقع تھا کہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں عمران خان کی تصاویر نظر آئیں اور ان کے حق میں نعرے لگے۔

جب ایوان میں احتجاج شروع ہوا تو ایک دوسرے کے خلاف بھی نعرے لگ گئے اور ایک موقع پر جب نواز شریف اپنی نشست سے اٹھ کر حلف نامے پر دستخط کرنے گئے تو پی ٹی آئی ارکان سے ہاتھا پائی کا خدشہ بھی پیدا ہوا مگر دونوں اطراف کی مداخلت سے معاملہ خوش اسلوبی سے ٹل گیا مگر ایک پی ٹی آئی رکن نے نواز شریف کی طرف عمران خان کا ماسک بھی پھینک دیا۔

نواز شریف کے دستخط کرتے وقت گیلری سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تالیاں

گیلری میں بھی نعرے بازی ہوئی شدت آئی تو اسپیکر کے حکم پر کچھ مہمانوں کو باہر بھی نکالا گیا۔ مہمانوں کی گیلری میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی موجود تھیں اور جب نواز شریف دستخط کرنے اسپیکر کی کرسی پر گئے تو مریم نواز نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔

نواز شریف ایوان سے باہر نکلتے ہوئے مریم نواز کے پاس کچھ دیر رکے اور پھر پارلیمنٹ ہاؤس سے چلے گئے۔

اقامہ پر اپنی نااہلی کے 7 سال بعد نواز شریف قومی اسمبلی میں آئے تو انہیں قائد ایوان کی سیٹ پر بٹھایا گیا جہاں وزارت عظمیٰ کے الیکشن کے بعد عام طور پر وزیراعظم بیٹھتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نواز شریف ایوان میں موجود بھی ہیں اور ان کی جماعت فاتح بھی مگر وہ وزیراعظم نہیں بنے اور اپنے بھائی کو نامزد کیا۔ تاہم ان کی موجودگی اور پارلیمانی پارٹی میں تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سیاسی اننگز جاری ہے اور وہ فعال کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اجلاس میں کئی بار تلخیاں دیکھنے کو ملیں مگر اجلاس چلتا رہا۔ میرے نزدیک پی ٹی آئی نے آج ایوان میں اپنا آپ خوب منوایا مگر ساتھ ہی ساتھ شرکت کرکے پارلیمنٹ کو بھی مان لیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی جماعتوں نے ان کے غصے کا برا نہیں منایا کیونکہ بہرحال پارلیمنٹ میں سب جماعتوں کی شرکت سے حکومت کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ویسے بھی سب جمہوریت کا حصہ ہے اور دنیا کی ہر پارلیمنٹ میں کسی نہ کسی حد تک احتجاج ہوتا ہے۔

ایاز صادق کا بطور اسپیکر سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم

شاید یہی وجہ ہے کہ نامزد اسپیکر ایاز صادق سے اجلاس کے بعد مختصر گفتگو ہوئی تو وہ خوش نظر آئے اور بولے ہم انہیں بولنے دیں گے تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور اسپیکر وہ قومی مفاہمت کی کوشش کریں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ پی ٹی آئی ارکان کو بولنے کا موقع دیا جائے گا۔

ایاز صادق نے کہا کہ ’میں ایوان کو مفاہمت کے ساتھ قومی مفادات کے لیے اکٹھا کرکے چلانا چاہتا ہوں تاکہ تلخیاں نہ ہوں اور سب مل کر بیٹھیں۔ یہی میرا سابقہ تجربہ ہے‘۔

میں نے برجستہ پوچھا کہ آپ کے سابق کلاس فیلو (بانی پی ٹی آئی عمران خان) بھی مفاہمت چاہیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں تو بس اپنی ہدایت کی دعا کر سکتا ہوں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp