سوشل میڈیا گروپس، سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کے وہ آن لائن فورمز ہیں، جہاں مختلف لوگوں کی دلچسپیاں، اہداف یا وابستگی میں مماثلت پائی جاتی ہے، ان گروپس میں شامل ہوکر اراکین بات چیت میں حصہ لے سکتے ہیں، مواد شیئر کرسکتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرسکتے ہیں۔
بعض اوقات واٹس ایپ گروپس میں بات چیت انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ افریقا کے پسماندہ ملک ’ملاوی‘ کی ملک عمان میں اسمگل ہونے والی 50 سے زائد خواتین کو ایک واٹس ایپ گروپ کی مدد سے بچا لیا گیا۔
افریقا کے ملک ملاوی کی ایک 32 سالہ خاتون جیورجینا نے غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ملاوی کے دارالحکومت لیلونگے میں ایک چھوٹا سا کاروبار کرتی تھی، اس دوران ایک ایجنٹ نے ان سے رابطہ کیا کہ وہ انہیں دبئی میں ڈرائیور کی نوکری دلائیں گے، لیکن جب وہ ایجنٹ کے کہنے پر بیرون ملک جانے پر راضی ہوئیں تو اس کو دبئی کے بجائے عمان پہنچا دیا گیا جہاں انہیں معمولی ملازمت ملی۔
جیورجینا نے بتایا کہ عمان میں ان سے 22 گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور 2 گھنٹے سے بھی کم وقت نیند کے لیے ملتا تھا۔ وہاں گئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ان کے باس نے انہیں جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ کیا تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔
کیسے ایک واٹس ایپ گروپ نے جیورجینا کی مدد کی؟
کئی ہفتوں کے بعد جورجینا اس صورت حال سے مایوس ہو گئیں۔ پھر انہوں نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کسی سے مدد کی درخواست کی۔ ہزاروں میل دور امریکی ریاست نیوہیمپشائر میں، ملاوی سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ پیلیانی مومبے نیونی نے ان کا پیغام دیکھا۔ مومبے نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ پھر اس نے جورجینا کی حفاظت کے لیے فیس بک پوسٹ ہٹا دی اور اس پوسٹ کا مواد اپنے واٹس ایپ نمبر پر بھیج دیا اور ایک واٹس ایپ گروپ بنا کر اس میں شیئر کردیا۔ جس کے بعد یہ پیغام عمان میں بھی گردش کرنے لگا۔
مزید پڑھیں
پیلیانی مومبے نیونی کے مطابق اسے معلوم ہوا کہ ‘جورجینا پہلا شکار تھی، پھر ایک اور لڑکی، دو لڑکیاں، تین لڑکیاں اس جعلسازی کا شکار بنی، یہ سب دیکھ کر اس وقت اس نے سوچا کہ اسے ایک واٹس ایپ گروپ بنانا چاہیے، کیوں کہ یہ معاملہ انسانی اسمگلنگ جیسا لگتا ہے۔’
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے بنائے گئے واٹس ایپ گروپ میں عمان میں گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے والی 50 سے زائد ملاوی خواتین نے شمولیت اختیار کرلی۔ یہ واٹس ایپ گروپ جلد ہی انسانی اسمگلرز کی ستائی ہوئی خواتین کے آڈیو اور ویڈیو پیغامات سے بھر گی۔ بعض آڈیو ویڈیو پیغامات میں خواتین کے ساتھ ہونے والے خوفناک حالات کی تفصیل تھی۔
ان پیغامات سے یہ بات سامنے آئی کہ بہت سی خواتین کے پاسپورٹ عمان پہنچتے ہی چھین لیے گئے اور انہیں واپس اپنے ملک جانے سے روک دیا گیا۔
بعض خواتین نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو بیت الخلاء میں بند کرکے خفیہ طور پر اپنے پیغامات واٹس ایپ گروپ میں بھیجتی ہیں۔
ایک خاتون نے اپنے پیغام میں بتایا کہ ‘مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں جیل میں ہوں، ہم کبھی نہیں بچ سکتے۔ ایک اور خاتون نے بتایا کہ ‘میری جان واقعی خطرے میں ہے۔‘
خواتین کے واٹس ایپ گروپ میں پیغامات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیلیانی مومبے نیونی نے ملاوی میں انسانی اسمگلنگ کے خیراتی اداروں سے بات کرنا شروع کی اور یونان میں مقیم ڈو بولڈ کی بانی Ekaterina Porras Sivolobova سے بات کی۔
مسقط میں 3 مہینے رہنے کے بعد اور محترمہ نیونی اور عمان میں کسی کی مدد سے جیورجینا جون 2021 میں ملاوی واپس آئی۔
یہ صرف ایک خاتون کی بپتا نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق خلیجی ریاستوں میں تقریباً 20 لاکھ خواتین گھریلو ملازم ہیں۔
تارکین وطن کے خیراتی ادارے ’ڈو بولڈ‘ کی طرف سے عمان میں سروے کیا گیا، جس میں 400 خواتین سے رائے پوچھی گئی، اس سروے کے اعداد و شمار 2023 میں امریکی محکمہ خارجہ کی ٹریفکنگ ان پرسن رپورٹ کے ذریعے شائع کیے گئے، جس کے مطابق سروے میں شامل تقریبا تمام خواتین انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئیں۔
سروے میں شامل تقریباً ایک تہائی خواتین نے بتایا کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی،جبکہ نصف نے جسمانی زیادتی اور امتیازی سلوک کی شکایت کی۔
نیونی کے واٹس ایپ گروپ میں ایک اور 39 سالہ خاتون بیلیسنگ دسمبر 2022 میں اپنے 4بچوں کو لیلونگوے میں اپنی بہن سٹیویلیا کے پاس چھوڑ کر عمان گئیں، وہ عمان میں جس گھر میں کام کر رہی تھیں، اس کے باورچی خانے میں وہ بری طرح جھلس گئی تھی، لیکن ان کا آجر اسے ملاوی واپس نہیں آنے دے رہا تھا۔
اس خاتون نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بہن کو بتایا ’میں یہاں اس لیے آئی تھی کہ یہاں بہتر روزگار ملے گا، لیکن اگر میں یہاں مر جاؤں تو میرے بچوں کا خیال رکھنا، یہاں مجھے تکلیف دی جارہی ہے۔‘
سٹیویلیا نے اپنی بہن کو گھر لانے کے لیے لابنگ شروع کر دی، پہلے تو ایجنٹ نے غصے میں اس کے گھر والوں کو بتایا کہ وہ مر چکی ہے، لیکن یہ سچ نہیں تھا اور آخر کار وہ گزشتہ اکتوبر میں ملاوی حکومت کی مدد سے واپس آگئیں۔
خاتون نے وطن واپسی پر بتایا ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنے خاندان اور بچوں کو دوبارہ دیکھ سکوں گی، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس زمین پر ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔’
ملاوی حکومت نے ’ڈو بولڈ‘ کے ساتھ بھی کام کیا اور کہا کہ اس نے عمان سے 54 خواتین کو واپس لانے کے لیے 1 لاکھ 60 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی۔
ڈو بولڈ‘ خلیجی ممالک میں تارکین وطن کمیونٹی کے ساتھ کام کرتا ہے، اسمگلنگ یا جبری مشقت کے شکار افراد کی شناخت کرتا ہے اور پھر انہیں’ رہا کروانے کی کوشش کرتا ہے۔
23 سالہ خاتون ایڈا چیوالو تابوت میں گھر واپس آئیں، ان کی موت کے بعد عمان میں کوئی پوسٹ مارٹم یا تفتیش نہیں کی گئی۔
عمان کے حکام نے کہا کہ وزارت محنت کو 2022 میں مالویائی قومیت کے گھریلو ملازمین کی طرف سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی اور 2023 میں صرف ایک شکایت آئی تھی ، اس کا ازالہ کیا گیا تھا۔
ملاوی حکومت کی ترجمان سیولوبووا کے مطابق ان میں سے زیادہ تر خواتین کی رہائی کے لیے آجر کو 1,000 ڈالر سے 2,000 ڈالر تک رقم ادا کی گئی۔ ’بنیادی طور پر ان خواتین کی آزادی کی قیمت ادا کرنا پڑی، یہی چیز مجھے پریشان کرتی ہے، تم کسی اور کی آزادی کیسے خرید سکتے ہو؟’
نیونی کا واٹس ایپ گروپ اب واپس آنے والوں کے لیے ایک سپورٹ فورم ہے، وہ کہتی ہیں کہ عمان اسمگل کیے جانے والے گھریلو ملازمین کا ملاوی میں ایک بڑا مسئلہ غربت اور بے روزگاری ہے۔
‘اگر نوجوان لڑکیوں کو ملاوی میں نوکریوں کا موقع ملتا تو وہ پھنسنے والی نہیں تھیں، ہمیں قوم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین اس طرح کبھی نہ پھنسیں۔’
جیورجینا کے لیے اس صدمے کو بھول پانا کافی مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں ’جب میں (ملاوی جھیل) لہروں کو دیکھتی ہوں تو یہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لیے نہیں رہتی، ایک دن یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن جائے گا، میں سکون پاتی ہوں اور خود کو حوصلہ دیتی ہوں کہ یہ دن گزر جائیں گے اور پہلے والے دن لوٹ آئیں گے۔‘
ڈو بولڈ کیا ہے؟
ڈو بولڈ خلیجی ممالک میں تارکین وطن کمیونٹی کے ساتھ کام کرتا ہے، اسمگلنگ یا جبری مشقت کے شکار افراد کی شناخت کرتا ہے اور پھر انہیں رہا کروانے کی کوشش کرتا ہے۔