اچھے وقت کا انتظار

منگل 26 مارچ 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کچھ لکھنا چاہوں تو لکھ نہ پاؤں۔ مگر آج پتا نہیں کیوں ایسا ہو رہا ہے۔ میں دو چار فقرے لکھتا ہوں پھر انھیں مٹا دیتا ہوں۔ ایک بار تو سوچا کہ لکھنا ملتوی کر کے آرٹ فلم، ‘اس کی روٹی’، جو کل سے دیکھنی شروع کی ہے، وہ دیکھنے بیٹھ جاؤں۔ پھر سوچا کیسا لکھاری ہوں کہ لکھنے چاہتا ہوں مگر لکھ نہیں پا رہا۔ ضرور اپنی بات مکمل کروں گا۔

لکھنا یہ چاہ رہا تھا کہ کچھ کرنے کے لیے کوئی بھی وقت آئیڈیل نہیں ہوتا۔ روز کا کام روز کرنا یا خود کو کام کرنے کی عاد ت ڈالنا ورزش کرنے یا کھانے کی عادت کو کنٹرول کرنے جیسا ہی کھٹن ہے۔

آپ اگر چہل قدمی یا ورزش کے عادی نہیں اور آپ شروع کرنا چاہتے ہیں تو روز آپ سوچیں گے کہ کل شروع کرلیں گے۔ کبھی سوچیں گے آج ٹھنڈ ہے۔ آج گرمی ہے۔ ابھی وقت ہے۔ مجھے کیا ضرورت ہے پاگلوں کی طرح رستے ناپنے کی۔

یا میں تو ویسے ہی فِٹ ہوں۔ مطلب سو بہانے آپ کو ملیں گے۔ اسی طرح فرض کریں ڈاکٹر نے کہا ہے یا آپ خود اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے کھانے کی عادت پر قابو پانا پڑے گا۔ اتفاق سے کھانا مزے دار ہے۔ آپ سوچیں گے۔ آج تو جی بھر کےکھا لوں کل سے احتیاط شروع کروں گا۔ یاد رکھیں یہ کل کبھی نہیں آئے گا۔

اسی طرح پڑھنے کی عادت ہے۔ جنھیں مطالعے کی عادت ہے وہ جب تک تھوڑا بہت پڑھ نہ لیں انھیں چین نہیں پڑتا۔ مگر جنھیں پڑنے یا ورزش کی عادت نہیں آپ ان کے منہ سے ایک سا فقرہ سُنیں گے کہ ‘وقت ہی نہیں ملتا’۔ یا د رکھیں آپ کو وقت کبھی نہیں ملے گا۔ آپ کو خود ہی یہ زحمت کرنا پڑے گی۔ وقت نکالیں گے تو نکلے گا ورنہ وہ کبھی آپ کے قابو نہیں آئے گا۔ آئیڈیل وقت وہی ہوتا ہے جسے آپ آئیڈیل بنا لیں۔

ایک اور فقرہ آپ کو عموماً سُننے کو ملے گا کہ ‘مجھ موقع نہیں ملتا’۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پسماندہ سماجوں میں سب لوگوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع موجود نہیں ہوتے۔ یقیناً ایسی صورتِ حال میں سفارش اور اقرباء پروری کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔

ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے جو لوگ محض اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر آگے آتے ہیں۔ ان کے میدان میں دور تک ان کا کوئی مقابل نہیں ہوتا۔ لیکن ایسی مثالیں بہت کم ہوتی ہیں۔ نامواقف حالات و واقعات، مواقع کی کمی کے باوجود ہر زمانے میں گُنی، محنتی اور ذہین لوگوں نے اپنا رستہ خود بنایا ہے۔ سچی بات تو یہ کہ صلاحیت کا رستہ ایک حد تک ہی روکا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی فرد محنت اور لگن سے اپنی صلاحیت کو بڑھاتا ہے تو ہر رکاوٹ اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے زمانے میں کوئی کہتا ہے کہ اسے اپنے فن کے اظہار موقع نہیں ملتا تو یہ ایک مذاق ہی لگتا ہے۔ ارفع کریم، ملالہ یوسف زئی تو بہت نمایا ں مثالیں ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے مقبولیت کے نئے معیارات متعارف کروائے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر بہت سے ایسے لوگ ہیں، جنھوں نے کم تعلیم کے باوجود اپنی صلاحیتوں کی بنا پر بے پناہ شہرت حاصل کی ہے۔ سیالکو ٹ کے ایک گاؤں کے رہائشی مبشر صدیق نے اپنا یو ٹیوب چینل شروع کیا۔ سادہ سے انداز میں وہ کھانا بنانے کی ترکیبات بتاتا تھا۔ گوگل اور بی بی سی نے بھی اس پر سٹوری کی۔ ڈیڑھ ملین کے قریب اس کے سبسکرائبر ہیں۔ ہمارے دوست اور ریڈیو پاکستان سے بطور ڈائریکٹر پروگرامز ریٹائرڈ ہونے والے منظور کامران صاحب کے بیٹوں نے پرندوں کا چینل بنا رکھا ہے۔ دو ملین کے لگ بھگ ان کے سبسکرائبر ہیں۔ اسی طرح بے شمار یو ٹیوبر ہیں جنھوں نے نام او ر پیسہ دونوں بے تحاشا کمائے ہیں۔

دوبئی سے سیالکوٹ کا ہی ایک لڑکا انصر جٹ مسٹر پتلو کے نام سے ٹک ٹاک پر لائیو بیٹھتا ہے۔ وہ پانچوں جماعت میں تھا تو سکول سے بھاگ گیا۔ آج وہ ٹک ٹاک کا ‘کنگ’ کہلواتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ اوسطاً ایک کروڑ کے لگ بھگ کماتا ہے۔ جاوید چوہدری نے بھی ایک دن کسی ٹی وی پروگرام میں اس کا تذکرہ کیا تھا۔ انڈین اداکارہ راکھی ساونت، دیدار، کرکٹر مشتاق احمد اور شاہد آفریدی بھی اس کے پروگرام میں آ چُکے ہیں۔ آفتاب اقبال پتلو کو اپنے پروگرام میں بلا چُکے ہیں۔ یہاں تک کہ دوبئی میں ہونے والے ایک شو میں اس نے سنجے دت کے ساتھ اسٹیج شئیر کیا۔

میرا ایک چچا زاد چھوٹا بھائی سعید غالبا ً سات آٹھ جماعتیں پڑھا ہوا ہے۔ چند سال قبل مجھے علم ہوا کہ وہ علاقے کا نامی گرامی پہلوان بن چُکا ہے۔ پھر ایک دن وہ آیا کہ سعید جٹ پنجاب حکومت کی طرف سے ہونے والے ضلعی مقابلے میں رُستمِ سیالکوٹ کا ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کام یاب ہوا۔ اس زمانے میں شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے۔

پہلوان عام طور پر کھاتے زیادہ اور کام کم کرتے ہیں سعید کی اب گزشتہ کئی برسوں سے یہی صورتِ حال تھی۔ گزشتہ دنوں دُبئی میں کسی کمپنی نے اسے ایک انڈین پہلوان سنگ رام سنگھ سے مقابلے کے لئے بلایا ہوا تھا۔ سنگ رام سنگھ بھارتی پنجاب کا نامی گرامی پہلوان ہے۔ وہ مقبول بھارتی ٹی وی پروگرام ‘انڈین آئیڈیل’ میں بھی شرکت کر چُکا ہے۔ مقابلے سے پہلے مشرقی پنجاب کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے بل بورڈ لگے ہوئے تھے۔ اندازہ کریں کہ سعید اور سنگ رام کا مقابلہ سونی سپورٹس ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا۔آئندہ سعید امریکہ اور آسٹریلیا بھی کُشتی کے مقابلوں کے لئے جا رہا ہے۔

اسی طرح ہمارے کئی شاعر ادیب کراچی جانے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے مگر اپنے فن اور صلاحیت کی بنا پر لوگ اپنے خرچے پر انھیں بیرونِ ملک بلواتے ہیں اور ان کی خدمت سیوا بھی کرتے ہیں۔ ان چند مثالوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی وہی کام شروع کر دیں جو یہ نام اور دام کمانے والے لوگ کر رہے ہیں۔

عزیز دوست اور دانشور احمد اعجاز کہتے ہیں۔ جو انسان شعور رکھتا ہے، وہ خواہ کاغذ ہی کیوں نہ چُنتا ہو، ایک نہ ایک دن زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ جا تا ہے۔ شعور، لگن اور محنت آپ کو اپنا رستہ خود بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ آپ بھی اپنا رستہ خود بنائیں۔ اچھے وقت کا انتظار نہ کریں۔ آپ آج سے ہی اپنا کام شعور کی آنکھ کھول کر زیادہ محنت سے کرنا شروع کر دیں۔ آپ کا وقت شروع ہو جائے گا۔ استاد دامن نے کہا تھا۔

بندہ کرے تے کیہ نئیں کر سکدا
منیا وقت وی تنگ توں تنگ آؤندا
رانجھا تخت ہزاریوں ٹُرے تے سہی
پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آؤندا

ترجمہ: انسان کرے تو کیا نہیں کر سکتا۔ گو کہ وقت بھی مشکل سے مشکل آ جاتا ہے۔ اگر انسان گھر سے منزل کی طرف نکلے گا تو ہی منزل اُسے ملے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp