سینیٹ آف پاکستان یا ایوان بالا پاکستان کی مقننہ کا اہم ترین حصہ اور پالیسی سازی کی منظوری کے لیے حکومت کو درکار ضروری فورم کی حیثیت رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں
الیکشن کمیشن نے سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات کے لیے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیو ں میں 2 اپریل کو پولنگ کا اعلان کیا ہے۔
پاکستانی قوانین کے تحت ایک سینیٹر کیسے منتخب ہوتا ہے، سینیٹ ممبران کے لیے الیکٹورل کالج کی دلچسپ اور پیچیدہ تقسیم کیا ہے اور خصوصی حیثیت کے حامل خطوں کشمیر اور گلگت کو سینٹ میں نمائندگی کیوں نہیں دی جا سکتی ان سوالات کا وی نیوز کی اس خصوصی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے۔
سینیٹ آف پاکستان کی تشکیل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
قیام پاکستان کے بعد 26 سال تک پاکستان کا پارلیمانی نظام ایک ایوان یعنی صرف قومی اسمبلی تک محدود تھا مگر سنہ 1973 کے آئین میں سینیٹ آف پاکستان کی تشکیل کی منظوری دی گئی اور پہلے سینیٹ آف پاکستان کے لیے پولنگ 6 اگست 1973 کو ہوئی۔
سینیٹ کی موجودگی بنیادی طور پر فیڈ ریشن میں شامل تمام اکائیوں کو برابر کی نمائندگی دینے کے لیے ضروری ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی اگر چہ تمام صوبوں سے نمائندے موجود ہیں مگر آبادی میں واضح اور بڑے فرق کی وجہ سے بلوچستان جیسے چھوٹے صوبوں کے پاس حق نمائندگی پنجاب جیسے بڑے صوبے کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
سینیٹ کی تشکیل اس لیے عمل میں لائی گئی تاکہ آبادی کے درمیان پائے جانے والے فرق کا نمائندگی پر کوئی اثر نہ پڑے۔
ڈک ورتھ لوئس سسٹم زیادہ پیچیدہ ہے یا سینیٹ کا انتخابی عمل؟
جس طرح کرکٹ میں موسم ، خراب روشنی یا کسی اور وجہ سے متاثرہ میچز کا نتیجہ ’ڈک ورتھ اینڈ لیوئس سٹم‘ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ سسٹم انتہائی پیچیدہ اور سمجھنے کے لیے عرق ریزی مانگتا ہے اسی طرح پاکستان کے ایوان بالا کے رکن کا انتخاب بھی انتہائی پیچیدہ طریقے سے کیا جاتا ہے جس میں قومی اسمبلی کے ممبران اسلام آباد سے سینیٹ کی 2 نشستوں کے لیے ترجیحی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے ممبران 7 جنرل نشستوں پر ترجیحی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور اسی حساب سے خواتین، ٹیکنوکریٹس اور اقلیتی نشست پر انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے ۔
اسلام آباد سے سینیٹ کے کل 4 ممبران منتخب ہوتے ہیں۔ 6 سال کے دورانیے میں قومی اسمبلی ہر 3 سال بعد 2 سینیٹرز کا انتخاب کرتی ہے جن میں ایک جنرل، ایک ٹیکنو کریٹ پہلے 3 سا ل اور ایک جنرل اور ایک خاتون دوسرے 3 سال میں منتخب ہوتے ہیں۔
اسی طرح ہر صوبے سے مجموعی طور پر 23 سینیٹرز ایوان بالا کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہر 3 سال بعد 2 صوبوں سے 12،12 جبکہ 2 صوبوں سے 11،11 سینیٹرز کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔
پہلے ایوان بالا کے ممبران کی مجموعی تعداد 104 ہوتی تھی تاہم فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد اس کی 8 نشستیں ختم ہونے سے اب یہ تعداد 96 ہے۔
سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات کے لیے الیکٹورل کالج
ایوان بالا کے ممبران کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں قرار پاتی ہیں۔ یعنی سینیٹ کا ممبر بھی منتخب ہوتا ہے مگر یہ انتخاب قومی اسمبلی کی طرح بلا واسطہ کے بجائے بلواسطہ ہوتا ہے۔
پہلے عام انتخابات میں عوام قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے اور پھر وہ نمائندے اپنے ووٹ کے ذریعے سینیٹ کی تشکیل کرتے ہیں۔
سینیٹ کی تشکیل کے میکنزم میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جماعتوں کی متناسب نمائندگی یقینی بنائی جائے تا کہ آئین سازی اور قانون سازی میں حکومت یا کسی ایک جماعت کی اجارہ داری کے بجائے ‘’بیلنس‘ برقرار رکھا جا سکے۔ اسی لیے عموما سینیٹ میں کسی ایک جماعت کو مکمل برتری حاصل نہیں ہوتی۔
صوبوں سے ایک سینیٹر کو منتخب ہونے کے لیے کتنے ووٹ درکار ہیں؟
2 اپریل کو ہونے والے انتخابات میں 48 ریٹائر ہو چکے ممبران سینیٹ کی جگہ اتنے ہی نئے ممبران کا انتخاب کیا جائے گا۔
اس مرتبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے 11,11ممبران کا انتخاب کیا جائے گا جبکہ سندھ اور پنچاب سے 12,12 سینیٹرز منتخب ہوں گے اور اسلام آباد سے 2 ممبران کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔
وفاق میں کسی بھی سینیٹر کو منتخب ہونے کے لیے اسمبلی میں موجود ممبران کی اکثریت درکار ہوگی جبکہ صوبوں میں یہ فارمولا اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ ہر صوبے سے 7 سینیٹرز جنرل نشستوں پر منتخب ہوتے ہیں لہذا ایوان میں کل ڈالے گئے ووٹ کو 7 پر تقسیم کیا جائے گا۔
366 ممبران پر مشتمل پنجاب اسمبلی میں جنرل سیٹ پر ایک سینیٹرز کو منتخب ہونے کے لیے لگ بھگ 52 ووٹ درکار ہوں گے۔
اسی 115 ممبران پر مشتمل کے پی اسمبلی میں ایک سینیٹر کوتقریباً 16 ووٹ، بلوچستان میں 51 کل نشستیں ہیں تو تقریبا 7 ممبران مل کر ایک سینیٹر منتخب کریں گے اسی طرح 168 ممبران پر مشتمل سندھ کے ایوان میں ایک سینیٹرز کو منتخب ہونے کے لیے تقریباً 24 ووٹ درکار ہوں گے۔
الیکشن قواعد کے مطابق یہی طریقہ کار خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے لیے اپنایا جائے گا۔ جتنی سیٹ ہوں گی متعلقہ ایوان اس حساب سے تقسیم ہوگا اور ووٹ کاسٹ کرے گا۔
یہ تمام اعدادو شمار قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی کل تعداد کے مطابق ہیں جو کہ حتمی نہیں ہیں۔ متعلقہ اسمبلی میں سیٹ خالی ہونے، کسی ممبر کے غیر حاضر ہونے، ووٹ مسترد ہونے کی صورت میں یہ اعدادو شمار تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی سینیٹ کے لیے ہر 3 سال بعد 2 امیدواروں کا انتخاب کرتی ہے۔
جس طرح سینیٹ میں ہر صوبے سے 23 ممبران منتخب ہو کر آتے ہیں اسی طرح وفاق سے 4 سینیٹ کی سیٹیں ہیں جن کے لیے الیکٹورل کالج قومی اسمبلی قرار پاتی ہے۔
اسلام آباد سے ہر 3 سال بعد 2 سنیٹرز6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں جن کے لیے قومی اسمبلی کا ہر رکن ووٹر ہوتا ہے یعنی ہر رکن ایک سینیٹ سیٹ کے لیے ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔
قومی اسمبلی میں ایک سینیٹرکو منتخب ہونے کے لیے درکار گولڈن نمبرایوان کے ممبران کی اکثریت ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کام کے طریقہ کار میں کیا بنیادی فرق ہے؟
پاکستان کے پارلیمانی نظام میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے کام کے طریقہ کار میں بہت نمایاں فرق نہیں ہے اور آئین سازی یا حکومتی اقدامات کی منظوری میں دونوں ایوانوں کی حیثیت برابر ہے۔
اسی طرح جن پارلیمانی رولز کے تحت قومی اسمبلی کام کرتی ہے ان ہی پارلیمانی رولز کے تحت سینیٹ بھی کام کررہا ہے۔
صرف فنانس بل سینیٹ کی منظوری سے مشروط نہیں ہے۔ اگر فنانس بل قومی اسمبلی منظور کر لے اور سینیٹ مسترد بھی کر دے تو وہ منظور تصور ہوسکتا ہے اور حکومت اسے نافذ کرنے کی مجاز ہے۔
اس کے علاوہ سینیٹ کی کمیٹیوں کی تشکیل میں نمائندگی کا فارمولا بھی پارٹی پوزیشن، حکومت اور اپوزیشن کی تعداد کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔
خصوصی حیثیت کے حامل خطوں کشمیر اور گلگت کو سینیٹ میں نمائندگی کیوں نہیں دی جا سکتی؟
سینیٹ آف پاکستان وفاق اور فیڈ ریشن کے چاروں یونٹ پنجاب،سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود سینیٹ میں نمائندگی نہیں رکھتے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آرٹیکل ون کے مطابق یہ مذکورہ خطے پاکستان کا حصہ تو ہیں مگر اپنی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے پاکستان کی فیڈ ریشن کا حصہ نہیں ہیں۔گلگت بلتستان کو سینیٹ میں نمائندگی کے حوالے سے ماضی میں بات چیت ہو چکی ہے مگر کشمیر کا تنازعہ جب تک حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس کی سینیٹ میں نمائندگی ممکن نہیں ہے۔ اور اس میں بنیادی رکاوٹ آئین کا آرٹیکل ون ہے جس میں فیڈ ریشن کے یونٹس کی تعریف کی گئی ہے۔
سینیٹ کی تشکیل کا پاکستانی میکنزم، دنیا کی دیگر بڑی جمہوریتوں میں کیا طریقہ کار رائج ہے؟
دنیا میں وفاقی نظام حکومت یا فیڈ ریشن پر مشتمل ممالک کی تعداد تقریبا 25کے قریب ہے ان تمام ہی ممالک میں پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا میں سینیٹ یا راجیا سبھا کے انتخاب کا طریقہ کار بھی پاکستان سے ملتا جلتا ہے۔ اسی طرح امریکا میں بھی سینیٹ موجود ہے مگر وہاں پر ایک سینیٹر کا انتخاب بلواسطہ کے بجائے بلاواسطہ یا براہ راست ہوتا ہے۔برطانوی سینیٹ یا ہاؤس آف لاڈرز کے ممبران کا انتخابات بھی براہ راست عوام نہیں کرتے بلکہ اپر ہاؤس کے ممبران کا انتخاب زیادہ تر نامزدگی کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔